اوبامہ کہانی

میں کینیا کے ایک سیاہ فام آدمی اور کنساس کی ایک سفید فام عورت کا بیٹا ہوں۔ میری پرورش میرے سفید فام نانا جو دوسری جنگ عظیم میں فوج میں شامل تھے اور نانی جو انکی غیرموجودگی میں فورٹ لیون ورتھ میں قائم بمبار جہاز اسمبلی لائن میں‌ کام کرتی تھیں کی مدد سے ہوئی۔ میں نے امریکہ کے بہترین اسکولوں میں تعلیم پائی اور دنیا کے غریب ترین ملک میں‌ رہا۔ میری شادی ایک ایسی عورت سے ہوئی جسکی رگوں میں دوڑنے والے خون میں غلام اور آقا کی کہانی ہے۔ ایک وراثت جو ہم نے اپنی دو عزیز بیٹیوں میں منتقل کی۔ میرے بھائیوں، بہنوں، بھتیجوں، بھتیجیوں، چاچاؤں اور عم زادوں میں ہر رنگ اور نسل کے انسان شامل ہیں اور تین بر اعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں. جب تک میں زندہ ہوں میں یہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا کہ اس زمین پر موجود کسی اور ملک میں میری کہانی ممکن نہیں۔

نومبر کی چار تاریخ کو بالآخر امریکی عوام نے تاریخ‌ رقم کردی۔ براک اوبامہ نے مارچ 2008 میں جس کہانی کا تذکرہ کیا وہ کہانی چار اور پانچ نومبر کی درمیانی شب دنیا بھر کے لوگوں کے لیے امید کا ایک نیا پیغام بن گئی۔ میں یہ بات جانتا ہوں کہ میرے الفاظ کئی لوگوں کو گراں گزریں گے اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اردو بلاگ پڑھنے والوں کی اکثریت اس تاریخی واقعے کو دوسرے زاویے سے دیکھتی ہے اور کئ لوگوں کی نظر میں یہ کوئی اہم بات نہ ہو لیکن امر واقع یہ ہے کہ جس ملک میں 60 کی دہائی تک سیاہ فام انسانوں‌کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا آج اس ملک میں ایک سیاہ فام کو صدر منتخب کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قابلیت کی بنیاد پر امریکہ میں بڑے سے بڑا منصب حاصل کر لینا ممکن ہے جو دنیا کے اکثر ممالک جن میں بدقسمتی سے سارے اسلامی ممالک شامل ہیں کم و بیش ناممکنات میں‌شامل ہے۔

اوبامہ کی فتح میں جہاں پچھلے آٹھ سالوں‌سے جاری ناکام پالیسیوں کا عمل دخل ہے وہیں ایک ایسی الیکشن مہم کا بھی بڑا حصہ ہے جسکی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی اور اسکو بلاشبہ عوامی سطح پر منظم کی جانے والی ایک بہترین تحریک کہا جاسکتا ہے جس نے نا صرف یہ کہ فنڈ اکھٹا کرنے کے تمام ریکارڈ چکنا چُور کردیے بلکہ صدارت کا حصول بھی ممکن کر دکھایا۔ ٹیکنالوجی کے استعمال اور انٹرنیٹ اور موبائل فونز کو ترجیحی میڈیم بنانے کے بعد بلاشبہ امریکی صدارتی مہم اوبامہ کے ساتھ ہی اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی اور اس الیکشن کے بعد کسی بھی صدارتی امیدوار کے لیے روائیتی طریقوں اسے انتخاب جیتنا ممکن نہیں‌ رہا۔

امریکہ میں اوبامہ کی فتح کو الیکشن نقشے اور ووٹرز ڈیموگرافکس میں ایک بڑی تبدیلی گردانا جارہا ہے۔ انڈیانا، اوہایو، کولاراڈو اور نیو میکسیکو جیسی لال ریاستوں کے نیلے ہوجانے کو ایک بڑی خبر مانا جارہا ہے اور ریپبلکن پارٹی کے لیے یہ بہت بڑا دھچکہ ہے۔ اس بات کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے کہ خوف اور نسل پرستی کی بنیاد پر چلائی جانے والی الیکشن مہمات شاید اب وہ پذیرائی حاصل نہ کرسکیں جو ماضی میں الیکشن جیتنے کا باعث بنیں۔ لیکن ساتھ ساتھ اوبامہ کی صدارت میں کامیابی بھی “تبدیلی”‌ کے مکمل ہونے سے مشروط ہے۔

امریکہ سے باہر بھی اوبامہ کی فتح کو امریکہ میں بڑی تبدیلی مانا جارہا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خارجہ پالیسی میں کلنٹن دور کی سفارتکاری کو بحال کیا جائے گا اور “بش ڈاکٹرائن”‌ جیسے بھیانک خواب کا خاتمہ کیا جائے گا جو عالمی امن کے لیے ایک خطرہ اور امریکہ کے بین الاقوامی وقار پر ایک بٹہ ثابت ہوئی۔ خارجہ پالیسی میں فی الحال جوہری تبدیلیوں کا آنا ممکن نہیں کیونکہ معاشی حالات کی درستگی نئے صدر کی توجہ کا اولین مرکز ہوگی جو انکی جیت ایک اہم سبب بھی ہے لیکن عوامی طاقت سے بننے والے صدر کے لیے زیادہ دن اپنے وعدوں کو ٹالنا ممکن نہیں‌ ہوگا اور ناکامی کی صورت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے دوبارہ اقتدار میں آنا ایک کٹھن مرحلہ ہوگا۔

بہتری کی امید بہتری پیدا کرتی ہے چناچہ ہم امید کرتے ہیں کہ نئے صدر صرف امریکہ میں ہی نہیں‌ بلکہ دنیا بھر میں جاری امریکی پالیسیوں‌ پر نظر ثانی کریں‌گے۔ خصوصا پاکستان اور افغانستان میں شہری علاقوں میں‌‌جاری خوفناک بمباری کی روک تھام اور شدت پسندی کے خاتمے کی سنجیدہ کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں گے جن میں مقامی آبادی سے مذاکرات نہایت ضروری ہیں۔ امریکی سفارتکاری کو فوجی اقدام پر فوقیت دی جائے گی اور جسطرح امریکی عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اسی طرح‌ پاکستانی عوام کی رائے کا بھی احترام کیا جائے گا جو جاری امریکی پالیسی کے سخت خلاف ہیں لیکن پاکستان میں بھی امریکہ کی طرح مضبوط جمہوریت دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی پاکستان میں “اوبامہ کہانی” دہرانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے امریکہ کو ہمارے آمروں کی پشت پناہی چھوڑنی ہوگی اور جمہوریت کا ساتھ دینا پڑے گا چاہے وہ امریکی پالیسی سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتی ہو۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (6)

ڈفر

November 5th, 2008 at 11:33 pm    


مایوس تو نہیں پر اوبامہ یا کسی اور سے اچھے کی امید نہیں
جب تک ہم خود کچھ نہیں کریں گے کوئی ہمارے لئے کیوں کرے گا؟
مجھے لگتا ہے ہمیں‌بش یا اوبامہ کی تبدیلی کی نہیں اپنے حکمران طبقے کی غلامانہ سوچ سے آزادی کی ضرورت ہے

افتخار اجمل بھوپال

November 6th, 2008 at 5:39 am    


میں نے امریکہ کی کئی حکومتیں دیکھی ہیں ۔ انتخابات سے قبل کے دعوے بعد کی پالیسی کا حصہ نہیں بنتے ۔ ہو گا کیا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ البتہ اوبامہ کا منتخب ہونا اور وہ بھی بھاری اکثریت کے ساتھ تبدیلی کی طرف اشارہ ضرور دیتا ہے ۔

امریکی سیاسی ماحول قابل تقلید ہے ۔ انتخابات کی تیاریاں دیکھتا رہا اور میں نے مکین اور اوبامہ دونوں کی تقریریں بھی سنیں ۔ سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہوتا ۔ گو نواز شریف نے پچھلے انتخابات کے بعد دانشمندانہ رویہ اختیار کیا ۔ وکلا نے مثالی تحریک چلائی مگر کچھ فرق نہیں پڑا ۔ اس کی وجہ عوام کی مادہ پرستی یا بے حسی کے سوا کچھ نہیں

میرا پاکستان

November 6th, 2008 at 10:34 am    


ہم کب امریکہ کی طرح‌کے انتخابات منعقد کرنے کے قابل ہوں‌گے یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہمارا اپنا شعور جاگے گا یا پھر ہمارے آقا کی چاہیں‌گے۔
تحریر سے ہٹ کر ایک بات پوچھنی ہے۔ یہ تبصرے میں‌آپ کی طرح میں‌ہم کس طرح نستعلیق خط استعمال سکتے ہیں؟

راشد کامران

November 6th, 2008 at 12:30 pm    


ڈفر صاحب، اجمل صاحب اور افضل صاحب آپ کے تبصروں کا شکریہ۔۔ اس بات پر بلاشبہ اتفاق ہے کہ جو جمہوری ماحول ان انتخابات میں‌دیکھنے میں آیا وہ قابل تقلید ہے۔۔ سخت انتخابی مہم لیکن ہارنے والے کا فوری طور پر ہار قبول کرنا اور موجودہ حکومت کا طاقت کے منتقلی پر فورا کام کرنا جو ہمارے یہاں خال ہی نظر آتا ہے۔ ہم مغرب کی کم تر یا بری چیزیں تو اپنا لیتے ہیں لیکن مغرب کی اعلی اقدار سے چشم پوشی کرتے ہیں حالانکہ ان اعلی اقدار میں ہمارے مذہب کی تعلیمات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔

افضل صاحب تبصروں میں نستعلیق استعمال کرنے کے لیے آپ کو جاوا سکرپٹ میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ آپ اوپن پیڈ کی اس لائن جہاں ایشیا نسخ‌ لکھا ہوا ہے نستعلیق کا اضافہ کرلیں۔

fontFamily=”‘Alvi Nastaleeq v1.0.0′,’Urdu Naskh Asiatype’, Verdena”

تبدیلی کے بعد یہ کچھ اسطرح نظر آئے گی۔

عبدالقدوس

November 8th, 2008 at 11:36 am    


اس میں بُری لگنے والی کونسی بات تھی بھائی؟ میں تو یہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ ابھی مجھے کچھ بُرا لگے گا۔۔۔

راشد کامران

November 9th, 2008 at 12:11 am    


ارے نہیں عبدالقدوس صاحب ۔۔ یونہی‌ کہہ دیا تھا۔۔ امریکا کی تعریف کبھی کبھی مہنگی پڑ جاتی ہے :(

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website