پاگل پن
البرٹ آئن اسٹائن کا کہنا تھا کہ ایک ہی عمل کو بار بار دہرانا اور مختلف نتائج کی توقع کرنا پاگل پن کی نشانی ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ سیانا آدمی مستقبل میں جھانک کر پاکستانیوں کے طرز عمل کو دیکھ رہا تھا لیکن یہ طے ہے کہ اس قول کے مطابق ہم بحیثیت قوم پاگل پن کا شکار ہیں۔ پچھلے ساٹھ برس سے ہم مستقل ایک ہی عمل میں مصروف ہیں اور توقع یہ ہے کہ نتائج مختلف نکلیں گے۔ کیا آمریت اور کیا جمہوریت ہمارا طریقہ کار ایک دائرے میں گھومتا چل رہا ہے۔
آمریت سے خیر کی توقع ۔۔ نتیجہ ہمیشہ ایک
آمریت زدہ سیاسی جماعتوں سے بہتری کی امید ۔۔ نتیجہ ہمیشہ ایک
جنگی جنون سے مسائل کا حل۔۔ نتیجہ ہمیشہ ایک
چوروں کو امین بنانا ۔۔ نتیجہ ہمیشہ ایک
اب بھی اگر یہی سوچ ہے کہ کوئی آمر، کوئی آمر نما صدر، کوئی جنگی جنون کا شکار خلیفہ آکر ہماری ناؤ کنارے لگادے گا تو پاگل پن کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تبدیلی عوام سے آتی ہے۔۔ اپنے جیسوں میں اپنے قائد تلاشیے ورنہ یہ اچکے ہماری سات نسلوں کو بیچ کھائیں گے۔ آمریت کے نام پر، جمہوریت کے نام پر اور مذہب کے نام پر۔
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (8)
میرا پاکستان
November 15th, 2008 at 9:33 pm
ہم لوگ واقعی ایک گول دائرے کے مسافر ہیںجو گھوم پھر کر واپس اسی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ پتہ نہیںکب ہم اس چکر سے نکلیںگے۔
ڈفر
November 16th, 2008 at 3:07 am
بھائی جی وہ آئن سٹائن تھا
افتخار اجمل بھوپال
November 16th, 2008 at 3:26 am
آئینسٹان تو کل کی بات ہے جو مسلمان چودہ صدی سے زیادہ قبل کا اپنے نبی رسول اللہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول ” مسلمان ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا” یاد نہیں رکھتا اور اپنے پیدا کرنے والے کا یہ فرمان بھی یاد نہیں رکھتے “جیسی قومیں ہوتی ہیں ویسے حکمران ان پے مسلط کر دیئے جاتے ہیں”اس سے آپ کیسی توقع لگائے بیٹھے ہیں ۔
عبدالقدوس
November 16th, 2008 at 5:07 am
بھائی اصل میں یہاںبھیڑ چال ہے اگر کوئی کالے چور کو ووٹ دیتا ہے تو پورا علاقہ جانتے ہوئے بھی اُسی کالے چور کی حمایت کرے گا یہ سوچ کر کے یہ تو پہلے ہی چور ہے ہم بھی چوری کریں گے تو سزا سے بچے رہیں گے
قدیر احمد
November 16th, 2008 at 10:11 am
آئن سٹائن بونگی مار گیا ہے، درست فقرہ یہ ہونا چاہیے۔۔
ایک ہی عمل کو “ایک ہی طریقے” سے بار بار کر کے مختلف نتائج حاصل کرنا حماقت ہے۔
راشد کامران
November 16th, 2008 at 9:54 pm
افضل صاحب۔ بے شک دائرے کا سفر ہمیں ہمشہ اسی فریب میں مبتلا رکھے گا۔
ڈفر صاحب۔ جی ہاں آئن اسٹائن ہی تھا جبھی تو بھلی بات کرگیا کیوں
افتخار اجمل صاحب۔ بلاشبہ بہت سی دانائی کی باتیں ہمارے مذہب کی بنیادوں میں شامل ہیں لیکن فی الحال ہم نے مذہب اور سائنس دونوں طرف سے آنکھ اور کان دونوں بند کررکھے ہیں۔
عبدالقدوس صاحب۔ آپ کی بات درست ہے۔۔ ہم ذات برادری اور جماعتی وابستگی کی بنیاد پر کالے نیلے پیلے ہر قسم کے چوروں کو ووٹ ڈالتے آرہے ہیں۔
قدیر احمد صاحب۔۔ شاید میرے ترجمے میں نقص رہ گیا ہوگا۔۔ ویسے بھی چاند دیکھنے سے مطلب ہونا چاہیے۔۔ انگلی کے ٹیڑھے پن سے کیا لینا؟
ابوشامل
November 16th, 2008 at 11:40 pm
اس شعر میں مزید وضاحت ہو جاتی ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
راشد کامران
November 17th, 2008 at 12:38 pm
ابوشامل صاحب ۔۔ اس شعر کے بعد تو کچھ کہنے کی گجائش ہی نہیں بچتی ۔ اجمل صاحب کے تبصرے اور آپ کے دیے گئے شعر کو ملا کر آئن اسٹان کی منطق کا تجزیہ کریں تو بات صاف ہے کہ ہمارا مسئلہ کیا ہے اور ہم حل کہاں تلاش کررہے ہیں۔
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں