پبلك ٹائلٹ۔۔عام لوگوں كي خاص جگہ

يہ مضمون دو سال پہلے ميں نے اپنے بلاگ پر لكھا تھا۔ معمولي ردو بدل كے ساتھ نئے بلاگ پر منتقل كيا ہے۔

ہم لوگ كسي بھي حال ميں وقت ضائع كرنے كے حق ميں نہيں، سفر ميں ہوں تو ذريعئہ سفر پر فن كے نادر نمونے كريدتے ہيں، يا پھر بعد ميں آنے والوں كے ليے تہنيتي پيغامات كا ايك سلسہ رقم كر ديتے ہيں انتہا يہ كے خواب خرگوش كے مزےليتے ہوئے بھي ’خواب‘ اور ’خرگوش‘ كے تعلق پر غور كرتے قلم ہاتھ ميں سنبھالے اٹھكيلياں كرتے ہيں ۔ ہو سكتا ہے لوگ يہ كہيں كے يہ ايسي كوئي نادرو ناياب خصوصيت تو نہيں جو ہميں دنيا كي ہر قوم سے ممتاز كرے؟ بجا؛ ليكن كيا ايسي بات پوچھنے والوں نے كبھي ہمارے ’پبلك ٹائلٹ ‘ ميں جانے كي سعادت حاصل كي ہے ؟ ہم تو وہ قوم ہيں جو ايسے نازك لمحات بھي گنوانا مناسب نہيں سمجھتے اور چند ساعتوں كے اس قيام كے دوران ادب، سائنس اور فن كے ايسے نادر نمونے آنے والي نسل كے ليے چھوڑ كر جاتے ہيں كہ ’عالم دوبارہ نيست‘۔

كبھي كبھي ميں يہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں كہ پبلك ٹائلٹ كي موجودگي ميں مزيد ذرائع ابلاغ كي كيا ضرورت ہے؟ دوبارہ يہي پوچھا جائے گا كہ وہ كيسے؟ جناب ؛ تعليم، فن، تجارت، سائنس، حرب ، سياسيات اور اقتصاديات غرض دنيا كے ہر موضوع پر مواد كا ايسا نادر ذخيرہ ان پبلك ٹائلٹ كے درو بام پر موجود ہے جو شايد ہي كسي كتاب، اخبار يا رسا لے ميں آج تك شامل كيا گيا ہو۔
دنيا گول ہے يا چپٹي، كوا حلال ہے يا حرام، پاسپورٹ مشيني ہو يا دستي، اہرام مصر فرعونوں نے بنوائے يا مغلوں نے گويا ہر چيز ، ہر جگہ اور ہر شخص كے بارے ميں ايسي مدلل، روشن خيال اور آزاد گفتگو كے پڑھنے والا عش عش كر اٹھے۔ اكثر لائن ميں كھڑے لوگ (خصوصاً جلد اندر پہنچنے كے خواہشمند) اندر موجود شخص كي طبعي حالت پر بد گماني كا اظہار كرتے ہيں بغير يہ سوچے كے اند كي دنيا اتني چھوٹي نہيں جتني باہر سے نظر آتي ہے۔

مضمون كي ’طوالت‘ كے ليے ہم كچھ اہم موضوعات پر موجود غير مطبوعہ معلومات كا ايك جائزہ پيش كر رہے ہيں جس سے يہ بات تمام قارئين پر روز روشن كي طرح عياں ہو جائے گي كے وہ كيسي نادر و ناياب چيزوں كے درميان زندگي گزار رہے ہيں۔ كاش يہ نادر نمونے دنيا كي كسي مہذب قوم كے پاس ہوتے تو باقاعدہ ايك وزارت انكومحفوظ ركھنے كے ليے حكومت كا حصہ ہوتي گو كے وزير كے ليے ہمارے وطن كا انتخاب ناگزير ہوتا۔

مثال كے طور پر سياست كے موضوع پر ايسي ايسي داستانيں كندہ كي جاتي ہيں جن سے آگاہي صرف اور صرف پبلك ٹائلٹ سے ہي حاصل ہو سكتي ہے۔ مختلف سياست دانوں كي جائے پيدائش اور مستقل رہائش گاہ ۔ اليكشن كا احوال معہ تصاوير۔ اور وہ تمام نعرے جو صرف پڑھے جا سكتے ہيں آپ كو اسي چھوٹي سي جگہ ميں دستياب ہونگے۔ چناچہ اگر آپ نے اب تك پبلك ٹائلٹ كي زيارت نہيں كي تو شايد آپ سياست كے بہت سے پہلوؤ سے آج تك آشنا نہيں ہو سكے۔

اگر اب حياتيات كا موضوع ليں تو يہ ايسا واحد موضوع ہے جس پر معلومات كا سب سے بڑا ذخيرہ اسي جگہ موجود ملے گا۔ انسان كي پيدائش سے موت تك كے تمام مراحل اشكال كے ساتھ اسطرح واضح كيے جاتے ہيں كہ كوئي ان پڑھ شخص بھي فيض ياب ہوئے بغير نہ رہ سكے۔بعض كندہ كي گئي تصاوير تو تجريدي آرٹ كے ايسے نمونوں كي حيثيت ركھتے ہيں كہ ميں دعوے سے كہ سكتا ہوں كے اگر كسي آرٹ گيلري ميں ان كو آويزاں كر ديا جائے تو مونا ليزا كي مسكراہٹ غصے ميں بدل جانے كا قوي امكان ہے۔

يہي وہ واحد جگہ ہے جہاں دنيا جہان كي وہ گتھياں بھي سلجھائي جاتي ہيں جو فلسفيوں كے ليے صديوں سے لاينحل مسائل كا درجہ ركھتي ہيں، مثال كے طور پر گھوڑا گھاس سے ياري كرے تو اسے كيا كھانا چاہيے، انڈے اور مرغي كي آمد كي اصل ترتيب كيا تھي، مولانا فضل الرحمن حكومت ميں ہيں يا اپوزيشن ميں اور ايسے ہي لا تعداد مسائل پر في سبيل اللہ ايسے ايسے حل تجويز كيے گئے ہيں كہ بس۔

ناصح حضرات كے ليے تو پبلك ٹائلٹ ايك جنت كي حيثيت ركھتا ہے جہاں ان كو اپني ناصح گري دكھانے كے انتہائي مواقع دستياب ہيں، مثلاً جينيات كے موضو ع پر لكھي گئي ايك نہايت اہم تحرير كے نيچے حضرت ناصح كي نصيحت واضح الفاظ ميں لكھي گئي تھي ’ لھكنے والے پر اللٰہ كي لعنت‘ اور ’جو كہتا ہے وہي ہوتا ہے‘ ميرا خيال ہے كہ يہ نصيحت لكھوانے كے ليے انہوں نے كسي كاتب كي خدمات مستعار لي تھيں تاكہ لعنت سے محفوظ رہ سكيں۔

وہ دن دور نہيں جب اشتہاري كمپنياں پبلك ٹائلٹ كي اس مشہوري سے فائدہ اٹھانا شروع كرديں اور دوسرے تمام فنون كي طرح يہ فن بھي ايك صنعت كي شكل اختيار كر لے۔ ميرا مشاہدہ ہے كے ’ٹيكسي‘ چلانے والے كافي اداروں كے فون نمبرز پہلے ہي اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہيں۔

پبلك ٹائلٹ كي ايك بڑي تعداد مساجد سے متصل پائي جاتي ہے جہاں لازمي طور پر فقہ كے مسائل پر تفصيلي گفتگو كي جاتي ہے۔ انہيں آپ درون خانہ جاري كيے جانے والوں فتووں كا مركز كہہ سكتے ہيں۔ بہشت و جہنم كي بشارتيں، كفر كي علامات اور مذہبي جماعتوں كے انڈر كور نعرے آپ كو صرف اور صرف يہيں دستياب ہونگے۔

كون كہتا ہے ہمارے وطن ميں فن كي قدر نہيں ۔ ہم نے تو اپنے پبلك ٹائلٹ تك فن كي خدمت كے ليے مختص كرديے ہيں جہاں عام و خاص سب كو فن خطاطي و مصوري سے فيض اٹھانے كي دعوت عام ہے۔

Filed Under: طنزومزاح

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (1)

فیصل

November 1st, 2007 at 2:31 pm    


ایک نعرہ جو میں نے یونیورسٹی کے ٹائلٹ میں لکھا دیکھا اور یاد رہ گیا، کچھ یوں تھا:
ظالمو جلدی کرو قاضی آ رہا ہے!

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website