مارشل لاء ۔ تلخ حقائق جن کا سامنا اب ضروری ہے
پاکستان میں مارشل لاء کا نفاذ دراصل کوئی انہونی نہیں بلکہ یہی اس حکومت کا اصل چہرہ ہے اس طرح حکومت نے صرف اپنے منہ سے عسکری جمہوریت کا نقاب اتار پھینکا ہے۔ میرے بلاگ کا مقصد صورت حال کو واضح کرنا ہے۔ مارشل لاء کے نفاذ سے اب تک میں اپنے جذبات کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ صورت حال کا صحیح تجزیہ کیا جاسکے۔
سب سے پہلی غلط فہمی جس میں کم و بیش ہم سب گرفتار ہیں وہ یہ کہ پرویز مشرف تمام برائی کی جڑ ہے اور “گو مشرف گو“ ہماری جدو جہد کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔ میرے حساب سے یہ بھیانک غلطی ہے۔ پہلے بھی مختلف تبصروں اور بلاگز میں، میں نے یہ بات کی ہے کے پرویز مشرف ایک شخص نہیں بلکہ اسٹیٹس کو کا نمائندہ ہے اسے ہٹا کر آ پ کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کرسکتے۔ موجودہ صورتحال کا سب سے اہم پہلو معاشی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب “ملٹری انک“ کے حقائق کے مطابق جس طرح پاکستانی فوج کے بنیادی مقاصد دفاع سے ہٹ کر معاشیات پہ مرتکز ہو چکے ہیں اس صورت حال میں اتنا طاقتور ادارہ کسی دوسرے خصوصا سویلین ادارے کا وجود برداشت ہی نہیں کر سکتا جو آگے آنے والے دنوں میں اسکی معاشی سلطنت کے لیے چیلنچ بن سکے یا کم از کم اسکے احتساب یا آڈٹ کا مطالبہ کر سکے۔
نواز شریف دور میں آپ اسکی ہلکی سی جھلک دیکھ چکے ہیں جب پارلیمنٹ نے کسی حد تک طاقت حاصل کی اور وزیر اعظم نے براہ راست فوجی سربراہان کوآئینی اختیارات کے تحت رخصت کیا ( گو کے ان اقدامات پر بحث ہو سکتی ہے)۔ لیکن پارلمینٹ کی اس طاقت کو نہ صرف یہ کے عسکری انقلاب کے ذریعے کچل دیا گیا بلکہ پارلیمنٹ بحیثیت ادارہ اس وقت غالبا پاکستانی تاریک تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
موجودہ دور میں آپ نے عدلیہ کی صورت میں اسکی جھلک دیکھی جہاں عدلیہ نے اپنی آئینی طاقت کو استعمال میں لانا شروع کیا اور اس سے پہلے کے وہ بحیثیت ادارہ ملک میں فوج کے لیے کسی چیلنچ کا باعث بنتی اسکی بساط لپیٹ دی گئی۔ اس وقت ملک کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ملک کے دو بڑے سویلین ادارے عدلیہ اور پارلیمنٹ سنگین بحران سے گزر رہے ہیں جہاں وہ فوج کا احتساب تو کجا اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے قابل بھی نہیں۔ دوسری طرف میڈیا کو کچلنے کے لیے اقدامات زوروشور سے جاری ہیں اور اس میں کامیابی کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں فوجی معیشت کو چیلنج یا صرف اسکی مالیت تک جاننے کے لیے کوئی سویلین ادارہ نہیں بچے گا۔
حکومتی (فوجی مراعات یافتہ) حلقوں کی طرف سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ عدلیہ نے اپنی حدود تجاوز کیا اور ان چیزوں میں ملوث ہوئی جو عدلیہ کے کرنے کے کام نہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے ہمارے جیسی غریب قوم اتنا بڑا دفاعی بجٹ فوج کو بینک، لائیو اسٹاک، فارمنگ، لاجسٹک سیل، منرل واٹر، باربی کیو ہاؤسز، پرائیویٹ یونیورسٹیز اور منافع بخش ہاؤسنگ اسکیمز چلانے کے لیے دیتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح کی منظم اور تربیت یافتہ فوج ہے جو قبائلیوں کے ہاتھوں یر غمال بن جاتی ہے؟ کیا فوج کی توجہ دفاع وطن کی طرف ہے بھی یا اس وقت فوج کی اولین ترجیح اپنی معاشی سلطنت کی حفاظت ہے جس کے لیے وہ تمام سویلین سیٹ اپ برباد کرنے اور خانہ جنگی کو ہوا دینے میں لگی ہوئی ہے؟ کیونکہ ایک عام پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ جو فوج تتر بتر قبائلیوں اور وار لارڈز تک سے جنگ کرنے کے قابل نہیں وہ لوگ کس طرح ایک منظم فوجی حملہ کا مقابلہ کر سکیں گے؟
اس وقت آپ پاکستان سے باہر بھی ہر طرف جاری جنگ و جدل دیکھیں تو آپ کو اس کے پیچھے صرف معیشت اور منافع خوری نظر آئے گی۔ عراق جنگ ہو یا افغانستان کی جنگ دراصل تیل و قدرتی وسائل پر قبضہ اور بڑی بڑی کارپوریشنز کا تحفظ ہی درون خانہ مقصد خون خرابہ ہے۔
ادھر سویلین اداروں کی مکمل بربادی اور انگریز کے نو آبادیاتی نظام کے تحت تربیت یافتہ فوج کے ہاتھوں یرغمال بنے پاکستانی عوام کو بقول کام نگار جاوید چوہدری صرف یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ ٹی وی چینلز کب کھلیں گے۔ سیاستدانوں کا یہ عالم ہے کہ سب کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ کسطرح فوجی حکومت سے کوئی ڈیل بنا کر انکی معاشی سلطنت میں داخل ہوا جائے۔ عوامی منظم سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کا یہ حال ہے کہ ایک تو گویا مارشل لاء کی حامی اور دوسری سول نافرمانی کی تحریک۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک اس حکومت کے خلاف چلائی جاتی ہے جسکے روز مرہ معمولات سویلینز کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ بجلی کا بل نہ دے کر آپ حکومت کو کیا نقصان پہنچا لیں گے یہ میری سمجھ سے بالا ترہے۔
پھر ایک جانب مذہبی شدت پسندی ہے جس نے شمالی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور تازہ خبروں کے مطابق سوات میں نہ صرف واپڈا چلانے میں مصروف فوج کو شکست ہوچکی ہے بلکہ مقامی طالبان نے اپنے گورنر تک نامزد کر دیے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ یہ عفریت بھی ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کہ پاکستان جیسی قوم کی طالبانائیزیشن تاریخ کا انسانیت کے ساتھ بدترین مذاق ہوگا۔
سوال حل کا ہے تو کم از کم میری سمجھ میں تو فی الحال کوئی حل نہیں آتا ۔۔ ہاں میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کے دس سال بات ہم پھر یہی سوال کر رہے ہوں گے کہ ٹی وی چینلز کب کھلیں گے ؟
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (2)
میرا پاکستان
November 8th, 2007 at 4:50 pm
کچھ نہ کچھ تو حل ہو گا جناب۔ یہ تو سب لوگ مانتے ہیں کہ اشرافیہ ملک کے غریب عوام کا حق مار رہی ہے مگر ہمت کسی میں نہیں کہ وہ اشرافیہ سے پنگا لے سکیں۔
سولہ کروڑ عوام کو اگر کوئی ٹھیک کرسکتا ہے نیک حکمران اور نیک حکمران تب تخت نشین ہوگا جب عوام چاہیں گے۔ اب عوام کا شعور جاگ رہا ہے مگر شعور جاگنے کی رفتار سست ہے۔ اسلیے مایوسی فوری نتائج کی ہوسکتی ہے مگر ایک نہ ایک دن عوام اشرافیہ کا کچھا اتار ہی دیں گے۔ اب وہ وقت ہوسکتا ہے ہماری زندگی میںنہ آئے مگر آئے گا ضرور۔
شہزاداحمد
November 10th, 2007 at 1:06 pm
بہت دلكش انداز ميں لكھا ھے۔ضرورت اس امر كي ھے كہ ھم سب ملكر اپنے معاشرے سے ان سوالات كو ختم كر يں۔تعميري تنْقيد اور ریسرچ كو فروغ دينا ھم سب كا فرض ہے اور يہ بلاگ اس كڑي كي بہترين كاوش يے۔
رہا سوال فوج کو اقتدار میں لانے کا تو یہ ھم سب کا قصور ہے۔ہم عوام کے پاس اب کوئ راستہ نہیں سواےً متحد ہو کرعدلیہ کے سات تحریک چلانے کا اور بقول راشد بھایً کے اس فوجی منچلوں اور غداروں کی زبردستی پسپایً کا۔
والسلام
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں