سول سوسائٹی کی بقا کا فیصلہ کن معرکہ

ایسا نہیں ہے کے قدرت کسی کی مکمل بربادی اور تباہی کو اسکی تقدیر بنادیتی ہے بلکہ قدرت ایک نظام کے تحت افراد اور قوموں کو بارہا اپنی تقدیر اپنی پسند کے مطابق ڈھالنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ جو افراد اور قومیں ایسے مواقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے لیے درست راستے کا انتخاب کر لیتی ہیں وہ وقت کے دھارے میں آگے بڑھ جاتی ہیں اور جو اس موقع کو گنوا دیتے ہیں وہ یا تو حالات کے رحم و کرم پر منزل سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں یا وقت کے بہتے دریا میں گئے وقت کو پکڑنے کے لیے بے مقصد مخالف سمت کا سفر شروع کردیتے ہیں۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان میں سول سوسائٹی کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کا اس سے بہتر موقع شاید کبھی دستیاب نہیں تھا۔ آج آپ پورے ملک میں کسی بھی فرد کی رائے معلوم کر لیں ایک عام آدمی کی دلی خواہش یہی ہے کہ اب ہمیں ایک مہذب معاشرے کے قیام کی راہ پر قدم رکھ دینا چاہیے۔ اس بات سے پر بھی کم و بیش قومی سطح کا اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہماری نصف صدی کی تاریخ میں بتدریج معاشرتی بنیادوں کو منظم طریقے سے کمزور کیا جاتا رہا ہے تاکہ ایک مضبوط و مربوط سول سوسائٹی وجود میں نہ آسکے۔ اسکے اسباب نہ تو ڈھکے چھپے ہیں اور نہ ہی موضوع بحث۔ جو چیز اس موقع کو نہایت اہم بناتی ہے وہ عدلیہ کی موجودہ حالت ہے۔ آج سے پہلے کم از کم میری یاداشت کے مطابق  پاکستان میں لوگوں نے عدلیہ کے اس روپ کو نہیں دیکھا اورہمارا بنیادی مسئلہ بھی عدل و انصاف ہے۔ معاشرہ چاہے اسلامی ہو یا سیکیولر بنیادوں پر استوار ہو عدل و انصاف کی فراہمی ہی دراصل مضبوط سول سوسائٹی اور افراد کے حقوق کی ضمانت ہوتی ہے۔

ہمیں ایک اور الیکشن نہیں چاہیے۔ ہمیں ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ درکار ہے کیونکہ جس دن ہمیں ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ دستیاب ہوگی اسی دن معاشرے میں بہتر قیادت کی بنیاد پڑھ جائے گی اور ہمارے لیے موزوں ترین نظام بھی خود بخود استوار ہوجائے گا۔ میں نہیں سمجھتا کے تین نسلوں کی غلامی کے بعد اب ہمیں اپنی چھوتی نسل کو بھی ایک بدبو دار نظام کی غلامی میں دے دینا چاہیے۔ اگر یہ سنہرا موقع نکل گیا تو پھر ہم وقت کے دھارے میں بے منزل بہہ رہے ہونگے یا پھر وہی مخالف سمت میں گئے وقت کو پکڑنے کی بے نتیجہ کوشش میں مصروف آدم خوروں کے قبیلے کو اپنی ایک اور نسل کی قربانی پیش کردیں گے۔

Filed Under: پاکستان, سياست

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (8)

میرا پاکستان

November 12th, 2007 at 11:29 pm    


اب دیکھنا یہ ہے کہ کونسی پارٹی اپنے منشور میں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والوں کو دوبارہ بحال کرنے کا وعدہ کرتی ہے اور حلف اٹھانے والوں کو گھر بھیجنے کا۔
یہ بھی دیکھنا ہے کہ آئندہ بننے والی حکومت کس طرح عدلیہ کا وقار بحال کرتی ہے اور اس کے فیصلوں کو من و عن مانتی ہے۔ انہی فیصلوں سے واضح ہوجائے گا کہ نئی حکومت معاشرے کو سنوارنے کا کردار ادا کررہی ہے یا بگاڑنے کا۔

راشد کامران

November 13th, 2007 at 12:14 am    


افضل صاحب مجھے نہیں لگتا کے دل سے کوئی بھی پارٹی (قیادت) آزاد عدلیہ کے حق میں ہے کیونکہ ایک آزاد عدلیہ انکی ابن لیڈر اور بنت لیڈر والی سیاست کی راہ میں بھی رکاوٹ بن جائے گی۔ یہ حال میڈیا کی آزادی کا بھی ہے کہ دل سے سیاستدان ایک آزاد میڈیا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگر ہم پھر انہی سیاستدانوں کو آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر نتائج کم و بیش وہی ہونگے جو ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں

پاکستانی

November 13th, 2007 at 3:54 am    


کوئی بھی حکومت ہو سب ہی عدلیہ اور میڈیا کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔ باقی یہ سب نورا کشتی ہے۔

اجمل

November 13th, 2007 at 5:22 am    


اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ سیاستدان جو بنیادی طور پر وڈیرا ازم چاہتے ہیں یا قبضہ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں انہیں نہ منصف عدلیہ چاہیئے اور نہ ہی آزاد ذرائع ابلاغ لیکن موجودہ صورتِ حال میں نواز شریف نے پہلے ہی دن صرف ایک مطالبہ کیا اور اب تک یہی مطالبہ کر رہا ہے کہ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے جج صاحبان کو بحال کیا جائے ۔ بینظیر سے تعاون کیلئے بھی نواز شریف نے یہی شرط رکھی ہے

راشد کامران

November 13th, 2007 at 12:52 pm    


اجمل صاحب نواز شریف کا مطالبہ ہی اس وقت سب سے وزن دار ہے لیکن ماضی میں عدلیہ کے ساتھ ان کا برتاؤ کچھ ایسا رہا ہے کہ قوم کو انصاف کی فراہمی کے حوالے سے میاں صاحب سے بے شمار تحفظات ہوں گے۔ میری نظر میں عدلیہ کی آزادی کا نعرہ سیاستدانوں میں بطور جدید فیشن عام ہے لیکن جب اقرار بالسان اور تصدیق بالقلب کی بات آئے گی تو پیچھے بہت تھوڑے لوگ ہوں گے۔

وقار علی روغانی

November 15th, 2007 at 5:37 am    


راشد !
آپ نے اس بنیادی مطالبے کے لئے سول سوسائٹی کو مخاطب کیا ہے ۔ میرے خیال میں مجھے ، آپ کو اور ہم جیسے دیگر مزدور پیشہ لوگوں کو اس کام کے لئے آگے آنا ہوگا ۔ عام آدمی کو ، کسی سیاستدان یا سیاسی جماعت کی طرف دیکھنا کم از کم میرے ناقص فہم میں بے وقوفی ہی ہے ۔ ان لوگوں نے ہمیشہ سبز باغ دکھا کر اپنے مقاصد حاصل کئے ہیں ۔ ان پر اعتبار نہیں‌ کیا جاسکتا ۔ عام لوگوں اور سول سوسائٹی کو یہ جنگ لڑنی اور جیتنی ہوگی ۔ سول سوسائٹی اور عام لوگوں‌ کو صرف اس ایک نکتے پر جمع ہونا چاہیئے کہ فوج کے عمل دخل کا خاتمہ اور عدلیہ کی آزادی ۔ بس اور کچھ بھی نہیں ۔

محب علوی

November 16th, 2007 at 9:37 am    


بات تو بالکل ٹھیک کی ہے اور اب عوامی دباؤ کی وجہ سے بینظیر نے بھی معزول ججوں کو بحال کرنے کا نعرہ بلند کر دیا ہے اور متحدہ اپوزیشن ترتیب پا رہی ہے۔

اس وقت ون پوائنٹ ایجنڈے پر عمل کی ضرورت ہے جو مشرف کو اقتدار سے اتار کر معزول ججوں کو بحال کرنا ہے اس سے کم کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

حافظ عطاء اللہ

November 28th, 2007 at 1:42 pm    


ڈیر لوگو!!
کون لڑے گا یہ جنگ؟
بزعمِ خود سول سوسائیٹی والے! جو اربوں ڈکار جاتے ہیں اور سانس بھی نہیں لےتے؟
وکلا ء جو پھانسی کے پھندے پر جھولتے ہوئے شخص کی ہائی کورٹ میں اپیل دایر نہیں کرتے صرف اس وجہ سے کے موکل کے پاس ایڈوانس لاکھ میں سےصرف پچاس ہزار ہیں؟(یہ ایک سچا واقعہ ہے،)
سیاستدان جن میں سے کوئی ایک بھی کرپشن سے پاک نہیں ہے؟
یا فوج جس کا ایمان ایک انجانا سا آرڈر ہے؟
جمہوری ملا جو اِن رہنے کے لئے کبھی یوگا سے نہیں ہچکچاتے؟
یا وہ لوگ جو ٹیررسٹ کہلاتے ہیں مگر حق کے لئے بیابانوں میں کٹ مرجاتے ہیں؟

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website