ہائے اس دس نمبر جوتے کی قسمت غالب

جوتے پھینکنا کوئی اچھا عمل نہیں بلکہ جوتے تو کچرے میں بھی سب سے آخر میں پھینکے جاتے ہیں یہی نہیں اکثر اوقات تو اپنے پیروں کے بڑے ہونے کا الزام جوتوں پر لگایا جاتا ہے کہ کم بخت چھوٹے ہوگئے، چلو منجھلے کے کام آئیں گے۔

لیکن صاحب کچھ خوش نصیب جوتے ایسے بھی ہوتے ہیں‌ جنہیں پھینکنا بلکہ دے مارنا عالمی سطح کا واقعہ بن جاتا ہے۔ کس نے مارا، کس کو مارا، کیوں مارا اس پر اب کیا بحث کرنی، یار لوگوں نے راتوں رات اتنا مواد شائع کردیا، ایسے ایسے ویڈیو گیم بنا دیے کہ مجھے تو یہ کوئی باقاعدہ منظم عمل لگتا ہے اور اس کے پیچھے یقینا الفائدہ کی جوتا مار بریگیڈ ہی ہوگی۔

لیکن صاحب جوتے کے نصیب دیکھیں، کہاں ایسا مجاہد جوتا اور کہاں گناہ گار امت۔ سنا ہے کسی نے ایک کروڑ ڈالر کی قیمت لگا دی ہے، سبحان اللہ یقینا کوئ مرد مسلمان ہی ہوگا ورنہ ایک کروڑ ڈالر سے ننگے پیروں میں جوتے نہ پہنا دیتا۔

خیر صاحب چلو پریشان حال امت کو کچھ تو ملا، کیا ہو اگر ہمارا ہیرو ایک جوتا ہے کسی نہ کسی دن کوئی بندے دا پتر بھی مل ہی جائے گا۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (15)

میرا پاکستان

December 18th, 2008 at 3:23 pm    


ایسی تحریروں‌کی وجہ سے ہی آپ کا بلاگ ایوارڈ کیلیے منتخب ہوا۔

عبدالقدوس

December 18th, 2008 at 10:11 pm    


http://urduhyd.blogspot.com/ حیدرآبادی صاحب نے تو یہ بھی کہا ہے کہ دس نمبر بھی اردو محاورے میں بہت معنی خیز ہے۔

ویسے مجھے تو یہ بات گراں گزری ہے

راشد کامران

December 18th, 2008 at 11:05 pm    


افضل صاحب آپ لوگوں‌ کی صحبت کا اثر ہے اور کچھ نہیں۔

عبدالقدوس صاحب آپ کی طبیعت پر کیا گراں‌ گزرا ہے؟ ہماری کوئی بات تو معافی کے خواستگار ہیں۔

محمد وارث

December 19th, 2008 at 4:36 am    


اس سارے قضیے میں پہلی بار کوئی “بندے دا پتر” والی تحریر پڑھنے کو ملی ہے!

عبدالقدوس

December 19th, 2008 at 9:22 am    


راشد بھائی آپ کی نہیں حیدرآبادی صاحب کی تحریر سے آخری لائن بس ۔۔

شکاری

December 19th, 2008 at 11:06 am    


بحان اللہ یقینا کوئ مرد مسلمان ہی ہوگا ورنہ ایک کروڑ ڈالر سے ننگے پیروں میں جوتے نہ پہنا دیتا۔

خیر صاحب چلو پریشان حال امت کو کچھ تو ملا، کیا ہو اگر ہمارا ہیرو ایک جوتا ہے کسی نہ کسی دن کوئی بندے دا پتر بھی مل ہی جائے گا۔
۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
اس معاملے میں جتنی بھی تحریریں یار لوگوں نے لکھی ان سب سے اہم بات تو آپ نے لکھی ہے۔چھوٹی سی پوسٹ میں‌اتنی اہم باتیں کردیں۔ شکریہ

راشد کامران

December 19th, 2008 at 1:03 pm    


وارث‌صاحب آپ کا شکریہ۔ آپ کا بلاگ عرصے سے غائب ہے اگر آپ میرے پاس اسے ہوسٹ کرنا چاہیں تو بندہ حاضر ہے۔۔ جو گیا سو گیا لیکن اتنے دن غائب تو نہ رہیں؟

شکاری صاحب آپ کا شکریہ۔ خوشی یہ ہے کہ آپ نے بھی وہ درد محسوس کیا۔ اب دیکھیں یہ کہ امت پر کیسی تباہی آئی ہوئ ہے بلکہ عربوں‌کے بغل غزہ میں انسانی المیہ برپا ہے لوگوں کے پاس کھانا کھانے کے لالے پڑے ہیں اور قلندر لوگ جوتے کی بولیاں لگاتے پھر رہے ہیں یہ تو کسی بھی درد مند دل کو دکھی کرنے کے لیے کافی ہے۔

محمد وارث

December 20th, 2008 at 12:02 am    


ذرہ نوازی کیلیئے بہت شکریہ آپ کا محترم، میں انشاءاللہ اس سلسلے میں آپ سے ربطہ کروںگا، ویسے اپنے بلاگ پر میں کونسا کوئی تیر مار رہا تھا! آج کل سوچنے کے مراحل میں ہوں، جو سالوں کا بھی ہو سکتا ہے :) کہ اپنی ڈومین اور ہوسٹ وغیرہ کا جھنجھٹ پال لوں۔

شعیب خالق بلوچ

December 20th, 2008 at 3:07 pm    


اسلام علیکم
راشد کامران صاحب
ہم مسلمان جوتے کو اس لئے ہیرو بنا رہے ہیں کہ مدت ہوئی کسی ہیرو کا دیدار کئے ہوئے۔ ہم ہیروز کے لیے ترسے ہوئے ہیں ۔ ہمیں کوئی انسان نہ ملا تو ہم نے جوتے کو ہی اپنا ہیرو چن لیا۔
شکریہ

زین زیڈ ایف

December 21st, 2008 at 7:14 pm    


السلام علیکم !
ہمیں‌کسی “”بندے دا پتر”” کا انتظار کرنے کی بجائے خود “”بندے دا پتر”” بننا ہوگا۔

بلو

December 22nd, 2008 at 9:41 am    


شعیب خالق بلوچ نے بالکل سہی کہا واقعی ایک عرصہ ہو گیا اور کسی ہیرو کا دیدار نہیں ہوا

راشد کامران

December 22nd, 2008 at 12:46 pm    


شعیب خالق صاحب بلاگ میں‌خوش آمدید۔ آپ درست کہہ رہے ہیں، ہمارے ہیروز کی لسٹ‌میں ایسے ایسے نمونے بھی شامل ہیں کہ جوتوں کو ہیرو بنائے جانے پر بھی یارلوگ خوش ہی ہیں

زین زیڈ ایف صاحب بلاگ میں خوش آمدید۔ آپ نے موضوع کی روح کی پکڑ لیا۔

بلو صاحب‌بلاگ میں خوش آمدید۔ میرا خیال ہے کہ آپ کا نام بلو ہی ہے نہ کہ ابرار حسین والی “بلو”‌اس لیے صاحب لکھ دیا۔

بلوُ

December 22nd, 2008 at 1:39 pm    


جی با لکل آپ نے ٹھیک لکھا ہے۔ اس لئے اس بار نام لکھتے ہوئے میں نے ُ ڈال دیا ہے۔

زین زیڈ ایف

December 23rd, 2008 at 4:36 pm    


شکریہ۔

نئی تحریر کب لکھ رہے ہیں ، ہمیں شدت سے انتظار ہیں۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website