ہمارا “گے” طرز فکر
ہمارے مجبور ملک میں کئی حکومتیںآئیں وردیاں، شیروانیاں، واسکٹیں، پتلون کوٹ اورتو اور عمامے اور پگڑیاں بھی تسلسل سے شامل کارواںرہیں لیکن مجموعی طور پر ہم “گے” طرز حکومت کا خاتمہ نہ کرسکے۔ جناح صاحب کو زندگی نے مہلت نہ دی لیکن انہوں نے “گے” باغات کا جو سلسہ شروع کیا دہائیاں گزرگئیں لیکن اس ملک سے “گے” فکر کا خاتمہ نہ ہوسکا بلکہ اس “گے” فکر کی وجہ سے ملک کی اپنی سالمیت پر سوالیہ نشانوں کی اتنی بھرمار ہوگئی کہ مزید نشان لگانے کی جگہ بھی باقی نہیں بچی کہ کوئی اپنے نئے “گے” دعوے سے ایک اور نشان لگا سکے۔
اسلامی فلاحی مملکت بنادیں “گے”
پیرس بنادیں “گے”
لندن بنادیں “گے”
غربت مٹادیں “گے”
سستا انصاف دلادیں “گے”
چاند توڑ کے لادیں”گے”
ستارے دس روپے درجن یوٹیلیٹی اسٹور میں بکوا دیں “گے”
کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دیں “گے”
اِس نے حملہ کیا تو بھرپور جواب دیں “گے”
اُس نے حملہ کیا تو ٹانگیں توڑ دیں “گے”
دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے تک چین کی سانس نہیں لیں “گے”
کالا باغ ڈیم بنا تو وفاق توڑدیں “گے”
کالا باغ ڈیم نہ بنا تو وفاق توڑ دیں “گے”
پاکستان کو بھارت کا قبرستان بنا دیں “گے”
یہ “گے” اور وہ “گے” اور مزید “گے”
مجھ سے پوچھیں تو اسے کہتے ہیں اوپنلی “گے” یعنی پورا کا پورا “گے” طرز فکر۔ ترقی کیسے ہوتی ہے؟ زمانہ کیسے چلتا ہے؟ اور عزت کیسے ملتی ہے؟ میں نہیںسمجھتا کے “گے” طرز فکر اگر معاشرے میں رچ بس جائے تو کچھ بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ حصول کا قاعدہ “ہے” طرز فکر میںپوشیدہ ہے۔ ہم اپنا پیراڈائم “گے” فکر سے “ہے” فکر میں تبدیل کریں تو ویرانیوں کا ڈیرہ ہے اور کوئی مقابل نہیںدور تک۔
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (8)
مکی
January 7th, 2009 at 7:43 pm
کیا بات ہے جناب کی کیا نقطہ نکالا ہے.. بھئی خوب ہے..
ہم آپ کی دھوم مچا دیں گے..
افتخار اجمل بھوپال
January 8th, 2009 at 2:05 am
گے” ایک فضول لفظ نہیں ہے بلکہ مُشتبہ اُس وقت ہو جاتا ہے جب پہلا “گے” “ہے” نہ بنے اور مزید “گے” آ جائے ۔
قائداعظم نے اپنے “گے” یعنی لے کے رہیں گے پاکستان کو “ہے” میں تبدیل کیا اور پاکستان گو کہ “گے” کے متوالوں نے آدھا کر دیا مگر “ہے” اور انشاء اللہ رہے گا ۔
آج کی جدید دنیا میں پانچ ۔ دس ۔ پچیس اور پچاس سالہ منصوبے بنائے جاتے ہیں اور یہ سب “گے” ہی ہوتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ جدید دنیا کے عوام “گے” کو “ہے” بنانے میں حکومت کی مدد کرتے ہیں جبکہ اپنے ہموطن جن کو غلط فہمی ہے کہ وہ بغیر اللہ کے فرمان پر عمل کئے ہی بخشے جائیں “گے” اس “گے” سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ جس نے سب سے زیادہ “گے” کے نعرے لگائے ہوں اور ان میں سے ایک کو بھی “ہے” میں نہ بدلا ہو اُسے ووٹ دے کر کامیاب بناتے ہیں ۔ چنانچہ قصوروار صرف حکمران نہیں عوام بھی ہیں ۔
شعیب صفدر
January 8th, 2009 at 2:05 am
نقطہ درست ہے!!
پوسٹ کا عنوان پڑھ کر میں ڈر گیا تھا!!! میں نے سوچھا کہیں یہ Gay تو نہیں!!!
مگر شکر ہے یہ گے ہے!
ڈفر
January 8th, 2009 at 6:54 am
میں سمجھا امریکہ سے کوئی امریکی قسم کی تحریر آئی ہے 😉
راشد کامران
January 8th, 2009 at 10:40 am
اسماء صاحبہ سے معذرت۔
آپ کا تبصرہ اپروو کرتے ہوئے بے دھیانی میں ڈیلیٹ پر ٹیپ کردیا اور اس کے بعد ورڈپریس نے نہ سوال کیا نہ جواب اور تبصرہ ڈیلیٹ کردیا۔ میں اس غلطی پر انتہائی معذرت خواہ ہوں۔ آپ کے تبصرے کا بنیادی جز جو مجھے یاد ہے وہ یہ تھا کہ
“حکومت نے گے طرز فکر چھوڑ کر ہے فکر کو اپنایا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا شہری “ہے” ۔
راشد کامران
January 8th, 2009 at 6:55 pm
مکی صاحب۔۔ شکریہ۔
افتخار اجمل صاحب آپ کی بات سے صد فیصدی اتفاق ہے خاص کر بے عمل بخشے جانے والی بات تو ہم لوگوں پر پوری طرح صادق آتی ہے۔
شعیب صفدر صاحب اور ڈفر صاحب آپ کے تبصروں کا شکریہ۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں انگریزی “گے” نہ پڑھ لیا جائے لیکن مسئلہ گھمبیر ہے اور انگریزی “گے” سے زیادہ دیسی “گے” اس وقت مسئلہ بنا ہوا ہے۔
اسماء صاحبہ۔ آپ کے تبصرے کے حذف ہوجانے کی ایک بار پھر معذرت لیکن نکتہ آپ نے خوب اٹھایا ہے کہ حکومت کی “ہے” ہوئی بھی تو کس واقعے پر ۔
عمار ابنِ ضیاء
January 9th, 2009 at 1:42 am
ہم بہترین اردو بلاگرز کو ایوارڈ دیں گے۔ ہم نے اس “گے” کو “ہے” بناکر دکھایا اور آپ نے اس تحریر سے ثابت کردیا کہ اردو بلاگرز کا فیصلہ درست تھا۔
ہماری حکومت بھی کئی معاملات پر “ہے” کا رویہ اپناتی ہیں۔ جیسے، ہمیں افسوس ہے، ہماری طرف سے پُرزور مذمت کی جاتی ہے، ہمیں ایسے کسی معاہدے کا علم نہیں ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ “ہے” والے جملوں میں کوئی خوش خبری سننے کو نہیں ملتی۔ 😉
راشد کامران
January 9th, 2009 at 12:42 pm
عمار صاحب یہ آپ لوگوں کا بڑا پن ہے ورنہ عاجز کی کیا مجال۔ ویسے بھی آپ نوجوانوں سے پاکستان کی بڑی امید ہے اور غالبا آخری امید اس لیے آپ لوگوں کا “گے” کو “ہے” بنانا بہت امید افزا ہے۔
ہماری حکومت کے پشیمان “ہے”سے ہمیشہ ایک “گے” بھی جڑا رہتا ہے اور وہ مسئلے کا باعث ہے۔ جیسے ہماری طرف سے پرزور مذمت کی جاتی “ہے” اور ہم آئندہ بھی صرف مذمت ہی کریں “گے”۔
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں