پاکستان کھپے ہی کھپے
اجمل قصاب پاکستانی ہے۔۔ اجمل قصاب پاکستانی نہیں ہے۔۔ اجمل قصاب پاکستانی ہے۔۔ درانی یو آر فائرڈ۔
واقعات کے اس تسلسل کو سمجھنے کے لیے افلاطونی دماغ قطعا درکار نہیںہے۔ “نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے” کے فارمولے کا حکومت پر اطلاق کریں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ عقل مند کرپٹ قیادت ملک کے لیے نااہل ایماندار قیادت سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن اگر کرپٹ اور نااہل قیادت برسر اقتدار آجائے تو پھر پاکستان کھپے ہی کھپے۔
کچھ لوگوں کو مغالطہ ہوچلا کہ اس بار بھارت نے لشکر طیبہ کا شکار کرنے کی بھرپور تیاری کررکھی ہے لیکن حالات کا رخ بتارہا ہے کہ اس بار نشانہ پاکستان کے ریاستی ادارے ہیں۔ وہ تمام ادارے اور ایجنسیاں جن کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نیک نیتی کے لیے صدر پاکستان موٹی موٹی قسمیں کھاتے نہیں تھکتے اب ان کی باری ہے۔ ممبئی دہشت گردی اور اجمل قصاب کے معاملے سے جس طرح نمٹا جارہا ہے اس سے آپ ہمارے کرتا دھرتاؤں کے اکاؤنٹ میں موجود عقل کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور ملک میں عقل مندی کا اتنا ذخیرہ بھی نہیں کے بیل آؤٹ فراہم کیا جاسکے۔
بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکھرجی کا حالیہ بیان ہے کہ پاکستان کے ردعمل میں تضاد ہے۔ اس بیان کے بھارت سے جڑا ہونے کی وجہ سے اختلاف کرنا ہوتو کریں ورنہ پاکستانی حکومت کے ردعمل میں واقعی تضاد ہے۔ اجمل قصاب کا پورا قصہ، لشکر کے خلاف کریک ڈاؤن، فوج کی مشرقی سرحدوںمیں محدود منتقلی اور پھر قومی سلامتی کے مشیر کی برطرفی۔ رہی سہی کسر ہر کس و ناکس کے الٹے سیدھے بیانات نے نکال دی ہے جس سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی حکومت کے افراد اور مختلف اداروں کے درمیان اختلاف اور باہمی روابط کی کمی کا بھر پور اندازہ ہوتا ہے۔ اس تمام کمزوری کا فائدہ بھارت نے اٹھایا اور وہ تاک تاک کر نشانے مارے کہ زردادی صاحب کا نان اسٹیٹ ایکٹر والا بیان ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گیا ہے۔
اب جیسا کے بھارت نے توپوں کا رخ آئی ایس آئی کی طرف کر لیا ہے اور کچھ مجوزہ فون کالز کی ریکارڈنگ منظر عام پر لائی گئ ہے جس کے مطابق ممبئی کے دہشت گرد اپنے پاکستانی سرپرستوں سے احکامات لے رہے تھے۔ سوال غلط یا درست کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سے انکار کیوں کر ممکن ہو کیونکہ آپ نے ایک چھوٹا مسئلہ اتنے بھونڈے انداز میںبرتا ہے کہ اب آپ کس منہ سے جھٹلائیں گے۔ اور پھر امریکن ۔۔ ان سے بہتر ہماری آئی ایس آئی کو کون جانتا ہے۔ اس پر لطیفہ یہ ہوا کے کہنے والے کہہ رہے ہیں جو اپنی شہید وزیر اعظم کے قتل کی تفتیش خود نہیں کرسکتے وہ بھلا کیا تفتیش کریں گے۔۔
اب آدمی کس کس کی زبان پکڑے۔۔ اپنے لیے تو پاکستان کھپے ہی کھپے۔
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (6)
مکی
January 8th, 2009 at 9:38 pm
لیکن اگر کرپٹ اور نااہل قیادت برسر اقتدار آجائے تو پھر پاکستان کھپے ہی کھپے۔
یہ پڑھ کر میری ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے…
ڈفر
January 9th, 2009 at 1:15 am
بات ویڈیو یا آڈیو کے منظر عام پر آنے کی نہیں
کہ انڈیان آڈیو ویڈیو کا تو ہر کوئی عاشق ہے
اور اس کی اصلیت سے بھی واقف
مزیدار بات تو یہ ہے کہ
جیسے ہمارا میڈیا انڈین میڈیا کی نقل کرتا رہتا ہے اسی طرح
ہمارے حکمرانوں نے بھی انڈین میڈیا کو کاپئ کرنا شروع کر دیا ہے
سو جگ ہنسائی ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں
”دند کڈی جاؤ ، تے ویکھی جاؤ“
میرا پاکستان
January 9th, 2009 at 5:47 am
کم از کم ہم اردو بلاگرز کا کسی بات پر اتفاق ہو نہ ہو ہماری پچھلی اور موجودہ حکومتی نااہلی اور کرپشن پر ہمیشہ پر سب ایک رائے رکھتے ہیں۔
واقعی بات درست ہے جب بچانے والا ہی مارنے پر کمر کس لے تو پھر بچائے گا کون۔ جب اپنے ہی اپنی بیڑیوں میںوٹے ڈال رہے ہیں توپھر دشمن کی تو ضرورت ہی نہیں۔ ہم نے زندگی میں کبھی اتنی نااہل اور بے حس قیادت نہیں دیکھی جتنی موجودہ قیادت ہے۔ اب تو خدا ہی بچائے سو بچائے۔
عبدالقدوس
January 9th, 2009 at 11:10 pm
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
پرسوں اقرار کل رات 7 دھماکے دعاء کرو اللہ بچائے
افتخار اجمل بھوپال
January 10th, 2009 at 3:15 am
ایک بات پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ ہم بحثیت فرد کے کیا کر رہے ہیں ؟ مجھے ایک بہت پرانی بچوں والی کہانی یاد آئی ۔ ایک راہ گذر کو ایک شخص نے کہا “دیکھو یہ میرا ساتھی اتنا بُرا ہے کہ میں دو گھنٹے سے اسے کہہ رہا ہوں کہ وہ سیب پڑا ہے مجھے لا دو مگر اس نے لا کر نہیں دیا۔ ذرا تم پکڑا دو مجھے”۔ راہگذر نے کہا “اللہ نے تمہیں بھی ہاتھ پاؤں دیئے ہیں ان کو استعمال کرو” اور چلتا بنا
راشد کامران
January 11th, 2009 at 5:43 pm
مکی صاحب واقعتا مضحکہ خیز بات ہے اور ہم لوگ رہ بھی اسی دور میں رہے ہیں۔
ڈفر صاحب تبصرے کی شکریہ۔۔ بس فی الحال تو ہم لوگ حکومت کے کارنامے دیکھ ہی رہے ہیں۔
افضل صاحب آپ کی بات درست ہے ہماری حکومت بجائے پاکستانیوں کو تحفظ دینے کہ انکی سب سے بڑی دشمن ہے۔
عبدالقدوس صاحب تبصرے کا شکریہ۔۔ بس آگے دما دم مست قلندر۔
اجمل صاحب ۔۔ کہانی سبق آموز ہے۔
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں