خونی غزل

اردو اور شاعری کے تعلق کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اردو سے شاعری نکال دی جائے تو صرف ہندی باقی رہ جاتی ہے۔ کل جب حلوائی کے لونڈے نے جلیبیاں تلتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ نیاز کے لیے جمعرات کے جمعرات بالوشاہیاں لے جانے والی دوشیزہ سے ناکام عشق کے بعد اس نے شاعری کا فیصلہ کرلیا ہے تو ہمیں اردو اور شاعری کا تعلق شدید خطرے میں نظر آیا۔ یوں کہ “شدھ اردو دانوں” کی ویسے تو کوئی کمی نہیں لیکن پھر بھی زبان کو خطرے میں دیکھ کر ہمارے اہل زبان لہو نے جوش مارا اور ہم نے حفاظت کی خاطر اس بات کی بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح حلوائی کو شاعری سے باز رکھا جائے لیکن کڑاہی میں موجود تیل کے درجہ حرارت کو مدنظر رکھتے ہوئے براہ راست، راست گوئی کی ہمت نہ پڑی۔ سامراجی طریقہ استعمال کرتے ہوئے میٹھی جلیبیاں بناتے حلوائی کے لونڈے کو میٹھی چھری سے حلال کرنے کی خاطر تازہ کلام سنانے کی فرمائش کردی۔ نظم  کے میعار کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ اگر اردو کے عام سے شاعر کی غزل پر اٹھارہ پہیوں والے ٹرک کا گزر ہوجائے تو بھی بہتری کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

کلام کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ہم نے دریافت کیا کہ یہ اردو شاعری کی کون سی صنف ایجاد ہوگئی ہے؟۔۔ جواب آیا کہ یہ”آزادانہ نظم” ہے۔ آزاد نظم سے تو ہماری کچھ واقفیت تھی لیکن آزادنہ نظم کی اصطلاح ہمارے جیسے بھولے بھالے زبان دان کے لیے بالکل نئی تھی لہذا خاموشی میں عافیت جانی لیکن حلوائی شاعر کی دکاندارانہ طبعیت نے منہ کا ذائقہ بھانپ لیا اور ہماری میٹھی چھری سے ہمیں خود ذبح ہوتے دیکھ کر ہماری پوری کھال اتارنے کا فیصلہ کرلیا۔ عرض کرنے لگے کہ خیالات کسی نظم کے پابند نہیں ہوتے بلکہ اپنی ترتیب دل و دماغ میں خود طے کرتے ہیں۔ ان چیزوں میں انسان کو بلاوجہ کی پابندیاں عائد نہیں کرنی چاہییں۔ اس بات نے ہمارا درجہ حرارت تقریبا کڑاہی میں موجود تیل تک پہنچا دیا چناچہ ہم نے “دو منفیوں کے ملنے سے مثبت مراد ہے” کی سچائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہیں احساس دلادیا کہ صفحہ قرطاس پر جس چیز کو آپ خیالات کا تسلسل کہہ رہے ہیں روایات میں انہیں وسوسے کہا گیا ہے اور ان کے رد کے لیے لاحول پڑھنے کا حکم منقول ہے۔ حلوائی شاعر پر ہماری نثری نظم کا تو کچھ اثر نہیں ہوا لیکن تازہ گلاب جامن اینٹھنے کے لیے موجود داد-یوں کی واہ واہ نے ہمیں گھر کا رستہ دکھا دیا۔

اہل زبان ہونا بھی بڑا بوجھ ہے چاہے اپنی زبان بولیں یا نہ بولیں اس کی بے توقیری برداشت کرنا اپنے بس سے باہر ہے۔ راستے بھر حلوائی شاعر کے مجوزہ دیوان کے بارے میں سوچ سوچ کر جان ہلکان کرتے رہے پھر طرح طرح کے منصوبے بناتے رہے کہ کس طرح اپنی زبان کو اس میٹھی شاعری سے محفوظ رکھا جائے۔ اردو شاعری کا ہاضمہ پہلے ہی درست نہیں‌اس پر اسطرح کی آزادانہ اور شیریں نظموں سے شوگر لاحق ہونے کا شدید خطرہ ہے۔ زبان سے محبت رکھنے والے زندگی بھر شاعری کو انسولین لگاتے نہیں دیکھ سکتے۔ اور خدانخواستہ کلو قصائی کے جاری عشق کی ناکامی کا خمیازہ بھی اردو شاعری کو بگھتنا پڑ گیا تو قلب و نظر کی شاعری کہیں چانپوں اور کلیجیوں کی نظر نہ ہو جائے۔ ویسے بھی قصائی چھیچھڑے ڈال کر وزن پورا کرتے ہیں اسطرح غزل تو ہوجائے گی لیکن بڑی خونی قسم کی ہوگی۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (25)

بدتمیز

March 26th, 2009 at 2:06 am    


:d

لالا

March 26th, 2009 at 3:15 am    


دادا آپ ایک بار پھر چھا گئے! کوئ تو لطف آیا ہے پڑھ کے
خوش رہئے!!

نہمان

March 26th, 2009 at 3:27 am    


زبردست،انت

میرا پاکستان

March 26th, 2009 at 5:41 am    


بہت خوب، ایک اچھی ادبی تحریر ہے اگر کمی رہ گئی ہے تو آزادانہ نظم کے چند مصرعوں کی۔

افتخار اجمل بھوپال

March 26th, 2009 at 5:44 am    


اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو آپ نے ہمارے اس دارِ فانی میں وارد ہونے سے قبل کے ادیب یاد دلا دیئے

محمد وارث

March 26th, 2009 at 6:17 am    


اجی واہ صاحب ‘خونی غزل’ اور ‘آزادانہ نظم’، کیا ذہنی اپچ ہے، حلوائی کے لونڈے اور قلو قصائی کی شاعری کے ساتھ ساتھ ہمیں پھجے نائی اور طیفے مراثی کی شاعری بھی یاد آ گئی :)
واہ، کیا خوبصورت تحریر ہے راشد صاحب، آپ مبارک باد کے مستحق ہیں، اور زیادہ خوشی کی بات میرے لیے یہ ہے کہ اردو بلاگنگ اب سیاست اور مذہب کے مذبح خانوں سے نکل کر شعر و ادب کے چمنستان میں اپنے اپنے رنگ رنگ کے گلوں کی بہار دکھا رہی ہے، بہت اچھی تحاریر تخلیق ہو رہی ہیں اور امیدِ واثق ہے کہ اسطرح کی تحریریں لکھ کر بقول ایک ستم ظریف کے ہمیں ‘٘محظوظ’ کرتے رہیں گے :)

بلال سعید

March 26th, 2009 at 6:36 am    


کیا بات ھے! راشد آج پھلی پرتبھ اتفاق ھوا تمھاری تحریر پڑھنے کا۔۔۔۔۔۔ بھت لطف آیا۔ پھر سوچا کچھ تمھارے لیے تحریر کیا جاے۔ میرے خیال میں کچھ کامیابی ھوًی ھے اردو ٹائپ کرنے میں۔۔۔۔

ریا

March 26th, 2009 at 7:33 am    


بہت اچھی تحریر ہے

jz tried to write in urdu.wesay yahan kya mushkil urdu likhnay ka muqabla ho raha he

ریا

March 26th, 2009 at 7:39 am    


واہ جی ہم نے صحیح لکھ لیا

بہت اچھی تھریر ہے وےسے اردو میں لکھنے کا مزا ہے الگ ہے

ریا

March 26th, 2009 at 7:44 am    


اک بات جو میں کھنا چاہوں گی وہ یھ ہے کھ کیا اس بلاگ پھ خواتین لکھاریں پھ پابندی ہے

رےا لکھتے ھیں درست نھیں کیوں کھ ریا صاحبھ لکھتی ہیں

شعیب صفدر

March 26th, 2009 at 10:58 am    


تحریر اچھی ہے مگر خیالات سے مکمل اتفاق نہیں!

ابوشامل

March 27th, 2009 at 12:17 am    


بہت خوب راشد صاحب۔ تحریر پڑھ کر لطف آ گیا۔

فیصل

March 27th, 2009 at 1:27 pm    


صاحب طرز مضمون تو کیا کہنے، نفسِ مضمون اضطراری ہے۔ کیوں؟ یہ تو آپکے، میرے اور افضل صاحب کے درمیان ہے ۔ حضور لکھئے اور خوب لکھئے لیکن جوابِ شکوہ نہیں کہ آوازِ سگاں کم نہ کند۔۔۔
باقی آپ سمجھدار ہیں۔ ۔ ۔

راشد کامران

March 27th, 2009 at 5:59 pm    


آپ تمام خواتین و حضرات کے تبصروں کا شکریہ۔ آپ لوگ حوصلہ بڑھاتے ہیں تو لکھنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔

ریا صاحبہ۔۔ اپنے بلاگ کے اس صنفی امتیاز سے ناواقف تھا۔۔ نہایت معذرت اور پہلی ہی فرصت میں تبصرے کی شہ سرخی کو درست کردوں گا۔

شعیب صاحب۔۔ اختلاف آپ کا بنیادی حق ہے اور اختلاف ہی نئے خیالات کو پنپنے کا میدان فراہم کرتا ہے۔

فیصل صاحب۔۔ اضطراری کیفیات کے اخراج کا بھی کوئی ذریعہ ہونا چاہیے بس ہم گداؤں کے پاس لے دے کر ایک بلاگ ہی تو ہے۔۔ سلیس اردو میں‌ اضطرار کا اظہار کردیتے ہیں۔ ورنہ سگان کوچہ و بازار تو کسی بھی نامانوس کو دیکھ کر آوازے لگادیتے ہیں۔

نعمان

March 27th, 2009 at 6:33 pm    


واہ کتنی خوبصورت تحریر ہے۔ آپ کا انداز تحریر بہت ہی خوبصورت ہے

جعفر

March 28th, 2009 at 1:40 am    


اگر خوشامد نہ سمجھیں تو۔۔۔۔
یوسفی کی یاد دلا دی آپ نے۔۔۔۔

دوست

March 28th, 2009 at 3:50 am    


اول تو کم کم لکھتے ہیں۔ مگر جب جب لکھتے خوب لکھتے ہیں۔ مزید کچھ کہنے کو الفاظ نہیں۔

عمر احمد بنگش

March 28th, 2009 at 5:00 pm    


واہ جناب کیا کہنے آپ کے، ادبی تحریروں کا انتظار رہے گا۔ اور پہلی حاضری بھی قبول کیجیے

راشد کامران

March 30th, 2009 at 3:15 pm    


نعمان صاحب، جعفر صاحب، دوست آپ حضرات کی حوصلہ افزائی تحریر کا بہترین صلہ ہے۔ عمر صاحب بلاگ میں خوش آمدید اور تعریفی کلمات کا شکریہ۔

ڈفرستان

March 31st, 2009 at 6:39 am    


بہت دنوں بعد طنزیہ ادب کی ایک عمدہ اور منفرد تحریر پڑھی ہے
کلو قصائی اور حلوائی کے لونڈے کا نام بھی بتا دیتے تو ۔۔۔ 😀 ۔

راشد کامران

March 31st, 2009 at 12:21 pm    


ڈفر-ستان آپ کے تبصرے کا شکریہ۔۔۔ نام کو چھوڑیں جی نام میں‌کیا رکھا ہے اور وہ کہتے ہیں نہ کہ

میں ترا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

مارچ 2009 کے بلاگ

April 13th, 2009 at 11:47 am    


[…] پر ایک مزاح کے طور پر لکھی ہوئی راشد کامران کی تحریر “خونی غزل” ایک بہترین تحریر ہے۔ راشد نے نہایت ہی  بہترین انداز […]

نگہت شاہین

April 18th, 2009 at 3:05 am    


راشد ہم نے تو بیچاری آزاد شاعری کا خونی رنگ آج کل بننے والے خوبصرت اور قابل، دید گیتوں میں دیکھ بھی لیا آپ کی اصطلاح ’’خونی غزل ‘‘ کو وسعت دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ آج کل شاعری کی تمام مستعمل اصناف اس رنگَ حنا سے سرفراز شہادت کے مرتبہ پر فائز ہے ۔ایک بات اور میں بھی ریا سے متفق ہوں تبصرہ لکھتی ہوں مگر آپ کے ہاں شاید تانیث کو تذکیر کردیا جاتا ہے ۔ خوشرہیں ہم اس پر بھی راضی۔۔۔

دوست محمد خاں

June 18th, 2010 at 5:11 am    


راشد صاحب، جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے تو بلا خوفِ تردید یہ بات کہی
جا سکتی ہے کہ ہر تیسرا چوتھا اردو والا شاعر واقع ہوا ہے، اب اس میں کوئی حلوائی ہو یا قصائی، کس کی مجال کہ کسی اردو والے کو شاعری کو گھان پر چڑھانے یا ذبح کرنے سے روکے۔ اور جب ہر پیشے سے تعلق رکھنے والے اردو داں جب اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ شاعری پر بھی طبع آزمائی کریں گے تو کیا صورتِ حال پیدا ہوگی، اس کا تصور میں نے کافی عرصے پہلے کیا تھا جس کے نتیجے میں کچھ کلامِ بے لگام معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اس کا ایک نمونہ آپ کی اور آپ کےبلاگ کے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔آپ کا اعتراض اس بات پر ہے کے حضرتِ حلوائی کا کلام آزادانہ نظم کے زمرےمیں آتا ہے۔ اگر ان کا کلام باقاعدہ مقفع اور مسجع ہوتا، تو آپ کیا کہتے۔ لیجئے، اس ناچیز کی اس ذہن کی پیداوار اس مزاحیہ کلام کا مزہ لیجئے اور اپنی رائے سے نوازیے۔ یہ حضرت قصاب کی غزل ہے۔ دیگر پیشوں سے وابستہ اردو شاعروں کے کلام کے چند نمونے اور بھی ہیں کو کبھی آئندہ حسب حال پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔

خونِ دل، خونِ جگر، خونِ تمنا دیکھا
میری آنکھوں نے ترے عشق میں کیا کیا دیکھا

ناصحا! تو نے کبھی اس کا سراپا دیکھا؟
پائے دیکھےہیں، سری دیکھی ہے، کلہ دیکھا

جی میں آیا کہ وہیں پائے اتاروں اس کے
جب ترے گھر کی طرف غیر کو جاتا دیکھا

میں تو سمجھا تھا کہ تو عقل کا پتلا ہے مگر
جب ہوئی بات تو خالی ترا بھیجہ دیکھا

چیخ اٹھے خوف سے اعضائے رئیسہ جس دم
ڈاکٹر کو ہی چراتے ہوئے گردہ دیکھا

ذیشان

August 14th, 2014 at 8:39 am    


شعراء سے زیادہ ظریف الطبع کوئ نھیں

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website