مولانا فضل الرحمن۔ ایک کیفیت

مولانا فضل الرحمن ایک ایسے سیاست دان ہیں جن کے بارے میں آپ کبھی وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے خلاف۔ وہ حکومت میں رہ کر اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور کبھی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر وزارت کے مزے لوٹتے ہیں۔ اپنے فن میں اتنے طاق ہیں کہ اپنی ذات میں ایک انجمن بن گئے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ مولانا اب صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک کیفیت بن چکے ہیں۔ کئی سیاستدانوں، مذہبی جماعتوں، کالم نگاروں اور عام لوگوں پر آج کل مولانا کی کیفیت طاری ہے۔

اس کیفیت کے اثرات کے زیر اثر اکثر لوگوں کا پتہ ہی نہیں چل رہا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے خلاف۔ کبھی طالبان کے دکھ میں روتے ہیں، کبھی پاکستان کے۔ کبھی طالبان کے نعرے مارتے ہیں اور کبھی گو طالبان گو کے۔ کبھی طالبان کے خیالات پر تف کرتے نظر آتے ہیں کبھی ان  کی پذیرائی میں طالبان سے زیادہ  طالبان کے وفادار ہوجاتے ہیں۔

میرے عزیز ہم وطنوں اب وقت آگیا ہے کہ فیصلہ کرلو۔۔ طالبان اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ طالبان چلنا ہی نہیں چاہتے۔۔ اب یا تو آپ طالبان کے ساتھ ہیں یا پاکستان کے۔ ورنہ مولانا ٍفضل الرحمن۔

Filed Under: پاکستان, سياست

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (16)

DuFFeR - ڈفر

May 8th, 2009 at 2:22 am    


اللہ نا کرے جو مزید فضل الرحمانوں سے ہمارا واسطہ پڑے
ایک کی کیفیت ہی لے ڈوبی باقیوں نے تو مرے پہ سو درے والا کام کرنا ہے

اسماء

May 8th, 2009 at 9:32 am    


اللہ بچائے دونوں سے ۔۔۔۔

شکاری

May 8th, 2009 at 10:53 pm    


جو لوگ سیدھے طریقے سے اپنا موقف نہیں منوا پاتے وہ اسی طرح ذاتیات پر اُتر آتے ہیں۔

افتخار اجمل بھوپال

May 8th, 2009 at 11:32 pm    


بہت افسوس ہوا مجھے ۔ طالبان یا فضل الرحمٰن کا نہیں ۔ آپ کے اُس قیمتی وقت کے ضائع ہونے پر جو آپ نے فضل الرحمٰن کو اُجاگر کرنے میں کیا ہے ۔ فضل الرحمٰن بھی کوئی ڈھکی چھُپی چیز ہے

جعفر

May 8th, 2009 at 11:47 pm    


درست کہا
میں بھی اسی کیفیت کا شکار ہوں
لیکن فضل الرحمن اور مجھ میں ایک فرق ہے
نیت کا ۔۔۔۔

فیصل

May 10th, 2009 at 2:06 pm    


میرے خیال میں‌آُپکا تجزیہ درست نہیں۔ طالبان اور پاکستان کے درمیان بہت سے گرے ایریاز (زبانِ‌فرنگ پر معذرت(‌ہیں۔ یہی بات آج عمران خان بھی کہہ رہا تھا کہ ہم نے یہ دو انتہائیں‌غلط بنا لی ہیں بھٹو صاحب نے بھی تو کچھ ایسا ہی کہا تھا کہ ادھر تم ادھر ہم اور جناب بش بھی یہی فرماتے تھے۔

راشد کامران

May 10th, 2009 at 4:20 pm    


آپ تمام خواتین و حضرات کے تبصروں‌ کا بہت شکریہ۔

شکاری صاحب۔ آپ کے تبصرے میں‌ اگر ذاتیات سے اشارہ مولانا صاحب کی طرف مقصود ہے تو وہ تو ایک سیاسی شخصیت ہیں جن کا کردار اور خیالات زیر بحث آئیں‌گے ہی۔ اور اگر کسی اور طرف توجہ دلانی مقصود ہے تو کم از کم اس پوسٹ میں کسی قسم کی ذاتیات کا کوئی عمل دخل نہیں اور یہ ایک عمومی ردعمل کے حوالے سے لکھا گیا مضمون ہے۔ پھر بھی اگر آپ کو کسی صورت ذہنی کوفت پہنچی ہے تو میری طرف سے معذرت۔

فیصل صاحب۔۔ گرے ایریاز میں‌ موجود امید کا میں بھی بہت قائل ہوں لیکن اس انتہائی خصوصی معاملے میں کس طرح گرے ایریاز کو سیاہ و سفید میں پاٹا گیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جن عناصر کو ہم طالبان کے نام سے جانتے ہیں آپ حالیہ دنوں‌میں‌ ان کی طرف سے مذاکرات اور بات چیت میں‌ غیر سنجیدگی کو دیکھ سکتے ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی کا اہم اصول کچھ لو اور کچھ دو ہوا کرتا ہے یہاں پاکستانی حکومت کے سب کچھ دینے کے بعد بھی مسلح جدوجہد پر اصرار اور دوسرے فریق کو مکمل باطل قرار دینے کے سبب گرے ایریاز بہت جلد بازی میں ڈارک کردیے گئے۔ میری نظر میں اب جس گرے ایریا کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ پاکستانی عوام کو ان شدت پسندوں جنہوں‌نے اپنے دہشت گرد ہونے کوئی شک نہیں چھوڑا ہے ان سے علحیدہ کرنا ہے اور سب سے پر امید بات یہ ہے کہ ہر طبقہ فکر کے عوام کی اکثریت نے طالبان کی حالیہ مہم جوئی کو سخت ناپسند کیا ہے ماسوائے چند لوگوں کے جن کی طرف اس پوسٹ میں بھی اشارہ تھا کو ابھی بھی کسی صورت ایک انتہائی غلط عمل میں خیر کا پہلو ڈھونڈے میں سرکرداں ہیں۔

عبداللہ

May 10th, 2009 at 10:37 pm    


میں صرف اتنی دعا کروں گا کہ اللہ تمام راہ بھٹکے مسلمانوں کو صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرمائیں تاکہ اس عزاب سے ہمیں نجات ہو اور یہ مملکت خداد پاکستان قائد کے خوابوں کی تعبیر بن سکے آمین


محترم راشد کامران صاحب!

ہمیں آپ کی بات سے اختلاف ہے۔درویش صفت مولانا مفتی محمود مرحوم کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمٰن اب ایسی بھی ڈھکی چھپی شخصیت نہیں ہیں اور نہ ہی ماضی کا کوئی نابغہ روزگار کرشمہ ہیں کہ جن پہ محقیقین ڈاکٹریٹ (پی، ایچ، ڈی) کی سند پانے کی جستجو میں تحقیق کریں۔ مولانا موصوف کا کردار اور کارہائے نامہ جات سب پہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔اور اسقدر خفیہ نہیں کہ کسی کو مغالطہ یا دھوکہ لگنے کا امکان ہو۔ اور یہ بات سب پہ واضح ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے سے آپ یہ بھی جانتے ہونگے کہ اُن کے زیر بحث سیاسی کردار کی وجہ سے تقریباً پاکستانیوں کی اکثریت انھیں ایک سیاسی رہنماء ماننے کو تیار نہیں۔ اور انکی سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ انکی دیانتداری پہ بھی بہت سے لوگوں کو اعتراض ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کی ایک مخصوص شناخت ہے۔ بعین اسی طرح جس طرح آپ کا پاکستان اور مسلمانوں کے متعلق ایک مخصوص نکتہ نظر ہے۔ جسے جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔

آپ نے موضوع تو مولانا فضل الرحمٰن رکھا ہے مگر درحقیقت مولنا فضل الرحمٰن کی پیچیدہ اور تہہ دار شخصیت جس سے پوری قوم ہی بوجوہ الرجک ہورہی ہے اور مولانا فضل الرحمٰانی کیفیت کو سب مظلوم و مجبور تبدیلی کے امیداواروں کے سر منڈھتے ہوئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے موضوع سے آپ نے اُن تمام پاکستانی مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا ہے۔ جو پاکستان کے بوسیدہ نظام کے متواتر ستم جھیلتے جھیلتے کسی بھی تبدیلی سے اپنے حالات بدلنے کا شگون لیتے ہیں۔ خواہ وہ گو مشرف گو اور چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی تحریک ہو۔ چیف جسٹس کو بحال کرنے کے لئیے نواز شریف کا لانگ مارچ اور دھرنے کی دہمکی ہو۔ یا سوات میں نظام عدل ریگولیشن پہ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے دستخط ہوں۔

یہ قوم اس ملک کے بے بس عوام، پچھلے ساٹھ باسٹھ سالوں سے کسی مسیحا کے منتظر ہے جو نمودار ہو اور انکے زخموں پہ پھاھا رکھے۔ مرہم لگائے۔ انکے آنسو پونچھے۔ انکی لحظہ لحظہ، لحمہ لحمہ ہر روز ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ بندھی مجبوریوں سے آزاد کروا سکے۔ مجبوریاں بھی محض اتنی سی ہیں کہ جسم و جان کا رشتہ قائم کرنے کے لئیے پیٹ بھر غذا۔ بوڑھی ماں کے بڑھاپے کا سہارا بننے کے لئیے روزگار۔جوان ہوتی بیٹیوں کے لئیے تن کا کپڑا۔ محض پیٹ پالنے کے لئیے ورکشاپ میں مزدروی کرتے بچے کے لئیے اسکول و تعلیم۔ مہینے کے آخر پہ تمام جائز ناجائز بیجھے گئے بلوں کے ادائیگی کے لئیے رقم۔ بوڑھے اور بیمار باپ کے لئیے دوائی اور ہسپتال اور شفاخانے کا بندوبست۔ تنکا تنکا جوڑ کر بنائے گئے آشیانے کی حفاظت۔سفید پوشی کا بھرم۔ عزت نفس کے وقار کا سوال۔پینے کے لئیے صاف پانی۔ بجلی اور بنیادی ضروتیں ۔ گھر سے نکل کر شام کو دوبارہ گھر پہچنے کی ضمانت۔ جان و مال اور عزت کا تحفظ۔ بس یہ ہے وہ مجبوریاں جن میں ہر آنے والے حکمران نے دہوکہ دینے والے خوشنما بلند بانگ دعوؤں سے اضافہ کیا۔ پاکستان کی حکمرانی۔ پاکستان کے تمام وسائل اور اسباب پہ کلی اختیار کی ٹکٹ اور ووٹ تو بھونڈے حکمرانوں کو، پاکستانی بے کس اور مجبور لوگوں نے دیا مگر ان حکمرانوں نے چاکری امریکہ اور اغیار کی۔ اور اپنے محلوں کی بنیادیں غریب اور پسے عوام کی ناتواں ھڈیوں پہ رکھی۔ اور خود قوم کے خون کا تر نوالہ نوش جان کیا۔

پچھلے ساٹھ سالوں سے لوگ بیدار آنکھوں سے خواب دیکھ رہے ہیں اور ہر معمولی سے واقعے سے شگون کرتے ہیں کہ ہو نا ہو یہ ہی وہ گھڑی ہو ، جس کا انھیں انتظار تھا۔ وہ گھڑی ۔ وہ لمحہ جس کے لئیے وہ نصف صدی سے زائد عرصے سے انتظار کر رہے ہیں ۔ مگر وہ گھڑی۔ وہ لمحہ آ کر ہی نہیں دیتا۔ اور خوآب ہے کہ پریشان ہوئے جارہے ہیں۔

کامران صاحب! آپ نے اپنے مخصوص نکتہ نظر کے تحت مولانا کے کردار کو رگیدتے ہوئے بڑی چالاکی سے تبدیلی کے انتظار میں ظلم سہتی پوری قوم کو رگیدا ہے جبکہ حقیقت اس کے بلکل الٹ ہے۔ آپ اگر دیانتداری سے کوشش کریں تو اس میں عوام نہیں امریکہ نواز حکومت کا کردار مولانا فضل الرحمٰن کا سا ہے۔ کیونکہ اگر عام آدمی نے پاکستان میں تبدیلی کو سوات عدل ریگولیشن سے جوڑا تو بھی امریکہ نواز حکومت کا قصور ہے۔ جس نے مولنا صوفی محمد کو پہلے جیل سے چھوڑا۔ پھر انھیں وی آئی پی قرار دیا ۔ ان سے کئی ماہ پہ مشتمل مذاکرات کئیے۔ قاضی اور دارالقضاء جیسی باریک ترین موشگافیاں تک ان سے اور انکے معاونین سے طے کیں۔ امریکہ اور اغیار کے اعتراضات پہ عدل ریگولیشن کے نفاذ میں تاریخی حوالے دیے۔ سوات کے عدل ریگولیشن کو بغیر کسی وجہ کے پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ سب اراکین قومی اسمبلی کی رائے لی اور آخرکار پاکستان کے صدر زرداری نے اس ریگولیشن پہ یہ کہتے ہوئے دستخط کر دیے کہ اس سے سوات کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا ہے۔ حکومتی مشینری نے ہر جگہ ہر کسی کو ایک ہی تاثر دیا کہ اس سے سوات کے عوام کے مسئلے جلد حل ہونگے۔ہر طرف انصاف کا بول بالا ہوگا۔ سوات میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوگی۔ ہر طرف امن کے گیت مہکیں گے۔ گویا عدل ریگولیشن نہ ہوا جادو کی چھڑی ہوگئی جو الہٰہ دین کے چراغ کے جن کی طرح سب مسائل چٹکی بجانے میں حل کردے گی۔امریکن نواز ذارداری حکومت نےعدل ریگولیشن کی برکتیں سنا سنا کر ساری قوم کے پچھلے ساٹھ سالوں کے نیم خوابیدہ خواب جگا دیے اور عام آدمی کا ذہن اس طرح بنا دیا کہ وہ سوات کے بعد اپنے علاقے میں ملتا جلتا عدل ریگولیشن کے نفاذ کے لئیے بے چین ہوگیا۔ تاکہ اس کی برکتیں سمیت سکے۔

تو محترم کامران صاحب! آپ کے تجاہل عارفانہ کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ آپ نے کس طرح انجان بنتے ہوئے سارے کا سارا بوجھ ان سادہ لوح عوام پہ ڈال دیا ہے جن کا ذہن بنانے میں زارداری حکومت اور اس کی مشینری کا ھاتھ ہے۔

آپ یہ کوڑی لاسکتے ہیں کہ حکومت نے دیانتداری سے معاملات درست کرنے کی کوشش کی مگر یہ طالبان دہوکا دے گئے۔ تو ایسی صورت میں پاکستان جیسے بڑے ملک کی حکومت جس کے پاس لمحہ لمحہ کی رپوٹ پہنچتی ہے جو مخبروں اور انفارمز کا جال بچھائے ہوئے ہے۔ جس کے پاس بے شمار انٹیلیجنس اور کاؤنٹر انٹیلی جنس ادارے ہیں۔تو اگر ایسی حکومت دہوکا کھا جاتی ہے تو بے چارے بھولے عوام کس کھاتے میں ہیں۔ ان کے پاس کونسے وسائل ہیں کہ وہ پتہ کرتے پھریں کہ جو کچھ حکومت اور ظالمان کہہ رہے ہیں۔ وہ درست ہے یا غلط۔ اور اگر آپ کہتے ہیں کہ حکومت تو ہر بات کا علم تھا بس وہ وقت حاصل کر رہی تھی تانکہ بڑی فوجی کاروائی کی تیاری جاسکے۔ تو بھی قصوروار حکومت ہے کہ اس نے اپنے عوام کو دہوکا دیا اور انکے ذہن عدل ریگولیشن کی نسبت سے طالبان کے لئیے ہموار کئیے۔ اور اگر واقعی زرادری حکومت کو طالبان کے ارادوں کا پتہ نہیں تھا تو بھی زرادری حکومت کو تسلیم کرنا چاھئیے وہ ایک نااہل لوگ ہیں جو اسقدر اسباب رکھتے ہوئے بھی طالبان کی نیتوں کا خلل نہ بوجھ پائے اور قوم کو مزید امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ۔ اور تیسری یہ بھی بنتی تھی کہ (میں ایسا سوچنا بھی نہیں چاہتا) کہ زراداری حکومت نے ہر قدم ہر لمحے آنکھیں بند کر کے امریکہ کی ھدایت پہ اٹھایا ہے تاکہ پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کیا جاسکے۔ تو ایسی صورت میں یہ پوری قوم کے لئیے لمحہ فکریہ ہے۔ تو ہر دو اور خدانخواستہ تیسری صورت میں بھی امریکہ کے گیت اور راگ گاتی اور مراعات اور انعام میں دیا کھاتی۔ حکومت پاکستان قصوار وار ہے جس نے لمبا عرصہ فضل الرحمٰانی کیفیت کو نہ صرف اوڑھا بلکہ ساری دنیا میں پاکستان اور پاکستانی عوام کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور محترم راشد کامران صاحب! آپ نے مولانا فضل الرحمٰن کو موضوع بناتے ہوئے صرف اور صرف تبدیلی کے خواہش مند پاکستانی عوام اور عدل و انصاف کے اسطرح کے معائدوں سے تبدیلی کا حسن ظن رکھنے والوں کو بے جا طور پہ درس دیا ہے ۔ جبکہ آپ کو تھوڑی سی مزید ہمت کرتے ہوئے انہیں رگیدنا چاھئیے تھا جن کا آپ نے اس سارے افسانے میں ذکر ہی نہیں کیا۔جن کی وجہ سے عوام پسے چلے جارہے ہیں اور جینے کے خواب دیکھتے ہیں۔

اگر ظالمان ایک سرے پہ انتہاپسند ہیں تو محترم آپ بھی دوسرے سرے پہ اسی طرح کی انتہاپسندی اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہے ہیں جو صرف اور صرف اپنے اپنے من پسندوں کے قصیدے اور گیت گاتے ہیں اور مخالفین پہ لعن طعن کرتے ہیں۔نہ ان میں میانہ روی کا حوصلہ ہے ، نہ آپ میں عدل و انصاف سے موضوع کے ہر پہلو کو اجاگر کرنے ہمت۔ کہ اس سے آپ کے نکتہ نظر کو تھیس پہنچتی ہے۔

امید کرتا ہوں میرے الفاظ سے آپ کا مزاج برہم نہیں ہوگا۔ ہر معاملے کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ میرا مقصد محض اتنا سا تھا کہ آپ اس مسئلے کے دوسرے پہلو بھی مدنظر رکھ کر تجزیہ کریں کہ کس پہ کب فضل الرحمٰانی کیفیت طاری ہوئی ہے۔

خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

ابواسامہ

May 17th, 2009 at 2:10 pm    


میرے خیال میں مولانا فضل الرحمن جیسی ایک بہترین معتدل اور امام سیاست شخصیت کو
اس طرح متنازع بناناایک بیوقوفی ہے،مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کو ان کے سخت مخالف بھی سلام پیش کرتےہیں اور منافقین توویسے بھی جلتے رہتے ہیں
ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں مولانا کا دلیرانہ موقف اظہر من الشمس دکھائی دیتاآیا ہے
کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ جو لوگ آج مولانا کی مخالفت کرہے ہیں ان کی بصیرت اور تدبر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے کل کو ان کو اقرار کرنا پڑا
الٹا سیدھا تجزیہ کرنے والوں کو کنویں کا مینڈک نہیں بننا چاہیے

کامل ،حیدآباد دکن

May 17th, 2009 at 2:23 pm    


دفر نے لکھاہے
اللہ نا کرے جو مزید فضل الرحمانوں سے ہمارا واسطہ پڑے
ایک کی کیفیت ہی لے ڈوبی باقیوں نے تو مرے پہ سو درے والا کام کرنا ہے
۔
آپ کا یہ تجزیہ سراسر حماقر اور ذاتیات پر حملہ کرنے پر مبنی ہے
آپ کے لیے سعدی کا شعر حاضر ہے اے جاہل
چہل سال عمرعزیزت گذشت
مزاج توازحال طفلی نہ گشت

یہ بلاگ لکھنے والا بھی ایک نمبر کا الو اور وقت کان بیٹا لگتاہے
لگتاہے اس سے بھی امریکہ نے پیسہ دینے کا وعدہ کیاہے

راشد کامران

May 17th, 2009 at 5:19 pm    


جاوید صاحب آپ کی آمد اور تبصرے کا شکریہ۔۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے شاید بلاگ کا ٹائٹل پڑھ کر تبصرہ کردیا یا پھر میں اپنی بات درست طریقے سے سمجھا نہیں سکا۔۔ اگر منافقت اور غیر فیصلہ کن ہونے اور ایک معاملے میں مستقل تذبذب کا شکار رہنا آپ کی نظر میں تبدیلی کا انتظار ہے تو میں اس پوسٹ کو واپس لیتا ہوں۔ نا معلوم یہ تاثر آپ نے کیسے قائم کیا کہ اس پوسٹ میں تبدیلی کو تختہ مشق بنایا گیا ہے حالانکہ اس میں صرف منافقت اور دھوکے بازی پر توجہ دلائی گئی ہے کہ کسطرح لوگ چند طالبان حمایت یا مخالفت میں ابھی تک فیصلہ ہی نہیں کرسکے یا اپنی دوغلی سیاست کے لیے طالبان حمایت یا مخالفت کے درمیان پنگ پانگ کا سلسہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔ جہاں تک پاکستان کی عوام کی اکثریت کا تعلق ہے تو اس نے تو پہلے ہی طالبان کو بری طرح‌ مسترد کردیا ہے۔ امید ہے آپ اس پوسٹ کر پڑھ کر اپنے تبصرے پر نظر ثانی کریں گے کیونکہ آپ کی بیان کی گئی کئی باتوں کا یہاں کوئی تذکرہ ہی نہیں۔

ابو اسامہ، کامل حیدرآباد دکن اور دوسرے کئی نام جو آپ کے زیر استعمال ہیں۔۔ آپ اپنے اصل نام سے تبصرے کیجیے تو مولانا صاحب پر بھی گفتگو کریں گے اور آپ کو بلاگ کے بارے میں بھی بتائیں گے جس کا سوال آپ نے ایک دوسری پوسٹ میں اٹھایا ہے۔۔ آپ کے تبصرے کئی مختلف ناموں سے پڑھ کر یہ اندازہ تو ہوگیا کہ مولانا فضل الرحمن کیوں آپ کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔


محترم راشد کامران صاحب!
آپ لکھتے ہیں۔ ۔

محترم!
مجھے تو یوں محسوس ہوا ہے آپ نے میری رائے پڑھے بغیر ہی جواب لکھ دیا ہے ۔ جبکہ میں نے اپنی پچھلی رائے میں یہ بات واضح طور پہ لکھی ہے کہ آپ نے یکطرفہ بات کی ہے جبکہ دیانتداری اور سچ کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ تصویر کے دونوں رخ پیش کرنے کی کوشش کرتے ۔ اور اپنی پچھلی رائے میں میں نے کچھ نکات اٹھائے بھی ہیں جن پہ آپ جواباً محض۔ ۔ ۔ جاوید صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے شاید بلاگ کا ٹائٹل پڑھ کر تبصرہ کردیا ۔ ۔ ۔ لکھنے پہ اکتفا کیا ہے اور اٹھائے گئے ستفسار طلب نکات پہ جواب گول کر دئیے ہیں۔ بہر حال یہ آپ کا بلاگ ہے اور آپ یہ حق رکھتے ہیں۔ کہ جو مناسب سمجھیں وہ لکھیں مگر قاری ہونے کے ناطے ہم بھی جہاں محسوس ہوا وہاں اعتراضات منڈھتے رہیں گے۔

پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ کافی عرصے سے مغرب اور پاکستان میں موجود مغربی گماشتوں کو ، اچھا نہ جانے والوں کے پیچھے ھاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے ۔ اور آپ بھی اس لہر سے متاثر نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں مغرب سے ہٹ کر کسی بھی دوسرے نظام کے لئیے جستجو کرنے والے اور خاصکر اسلام کی بات کرنے والوں کو آنے بہانے سے بے وقار اور بے توقیر کیا جارہا ہے۔ اور آپ تو ماشاءاللہ دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ایسے لوگوں کے تذبذب کو کھلے عام منافقت کا نام دے ڈالا ہے ۔ جبکہ آپ اپنی یکطرفہ رائے کو غیر جانبدارانہ تجزئیے کے طور پہ سادہ لوح قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

آپ کے بھی علم میں ہوگا کہ سویت یونین کے افغانستان میں گھسنے سے لیکر آج تک ہماری حکومتوں کی ابوالعجمیوں نے کیا کیا رنگ دکھائے ہیں۔ اور کس بری ظرح پاکستانی عوام اور خاص کو بے وقوف بنایا ہے۔ پچھلے پچیس سالوں کے مختصر سے عرصے میں ہر معروف پالیسی پہ کشمیر سے لیکر افغانستان اور اندرونی و بیرونی ہر دو طرح کی تمام پاکستان کی پالیسیوں پہ، ہماری حکومتوں نے کچھ اسقدر تیزی سے اور اتنی بار یوٹرن لئیے ہیں کہ ہم تو کیا خود امریکی بھی حیران رہ گئے ہیں۔ جبکہ پاکستانی عام آدمی جنہیں آپ لعنت ملامت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کس کھاتے میں ہیں۔ آپ صرف ایک مثال پہ زرا غور کریں۔امریکہ کی شہہ پر تاریخ میں پہلی دفعہ طالبان کو تیار کرنے والی حکومت پاکستان پیپلز پاڑتی تھی۔ لیکن سب ملامتیں صرف مولویوں کے حصے میں آئیں۔ صرف ایک فون پہ مشرف نے چوں چراں کئیے بغیر نہ صرف پاکستان کے تیار کردہ اور تسلیم شدہ طالبان کی کمر سے دست شفقت اٹھایا۔ بلکہ ایک فریق ملک (پاکستان) کے سربراہ کی حیثیت سے دوسرے فریق (طالبان) کے خلاف تاریخ کی بدترین بد عہدی اوروعدہ خلافی کی ۔ اور انتہائی ناگزیر قسم کی مدد فراہم کرتے ہوئے امریکیوں سے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔جس پہ ساری دنیا اور خود امریکی بھی حیران رہ گئے ۔ورنہ مشرف اور پاکستان کی لاجسٹک مدد کے بغیر افغانستان میں امریکہ کے قدم جمانا تب تقریبا ناممکن تھا۔

ایک مثال اسی موجودہ حکومت کی دیکھ لیں کہاں تو یہ صوفی محمد سے گفت وشنید کر رہے تھے ۔ معائدے ہو رہے تھے ۔ عہد وپیمان ہو رہے تھے۔ اور کہاں سیاست سے غیر متعلق انکا بیٹا اڑا دیا گیا۔ اور چن چن کر سب کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔ کیا ہماری حکومت کے عقل کے اندھوں کو تب علم نہیں تھا کہ ریاستیں دباؤ میں آکر کسی ایک غیر منتخب نمائندے سے اپنے علاقوں کے قوانین کے بارے میں مزاکرات و معائدات نہیں کرتیں ۔ خواہ پیش نظر مقصد کس قدر نیک ہی کیوں نہ ہو ۔ کہ ایسا کرنا ایک ریاست کے وقار اور شان کے خلاف ہوتا ہے اور وہ بھی دباؤ میں آکر۔ کیا ہماری حکومت کے پاس امور ریاست کے بارے میں کوئی مشیر کوئی فرد نہیں ہے۔؟ اگر حکومت کو زیادہ ہی تنگی تھی تو کہتے کہ اگر آئین اجازت دیتا ہے تو ہم علاقے کے لوگوں سے ریفرنڈم کرواتے ہیں اگر انھوں نے قبول کیا تو بہتر ورنہ نہیں۔ نہ کہ صوفی محمد اور چند بندوق بردران کے دباؤ میں آکر کوئی سا بھی قانوں ان کے کہنے پہ نافذ کریں۔ اور یہ بھی اس بناء پہ جب حکومت مفاد عامہ سے مخلص ہوتی۔ جو کہ محسوس ہوتا ہے کہ سوات میں مذکورہ عدل ریگولیشن کے نفاذ میں حکومت کبھی بھی مخلص نہیں رہی۔

پاکستان کے عوام کو ابھی ایک معائدہ ہضم نہیں ہو پاتا تو پتہ چلتا ہے کہ جن سے معائدہ کیا گیا وہ تو تھے ہی غیر ملکی ایجنٹ۔ تو ایسے میں آدمی سر نہ پیٹ لے تو کیا کرے ۔؟جب پاکستان کی حکومتیں صرف پچیس سالوں میں اسقدر یو ٹرن اور اتنے کم وقت میں لیں تو پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں کونسی رائے عامہ بنے گی اور کس نہج پہ رائے عامہ ھموار ہوگی۔؟ ایسے میں تو اچھے خاصے امور سیاست پہ عمدہ گرفت رکھنے والے ماہرین بھی کنفیوز ہو رہے ہیں اور اس کینفیوزن اور تذبذب میں ہر گھڑی اضافہ خود ہماری حکومت کر رہی ہے ۔ کبھی کہتے ہیں امریکہ ہمارا دوست ہے ۔ اور اگلے سانس میں کہہ دیتے ہیں کہ امریکہ ہمارے ایٹمی پروگرام کا دشمن ہے جس کی حفاظت آخری سانس تک کی جائیگی ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ حکومت کہتی ہے۔ امریکہ پاکستان کو مظبوط ہوتے اور معاشی ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتا کہ یہ اس کے مفادات کے خلاف ہے۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیتے ہیں امریکہ ہمارا عظیم دوست ہے ۔ امریکہ ہماری مدد کررہا ہے اور ہماری مذید مالی مدد کرے۔

اب پاکستان کا عام آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ حکومت پاکستان نے سوات کے اندر قانون شکن اور دین اسلام کی واجبی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو جان بوجھ کر پروجیکٹ کیا اور طالبان کا نام دیدہ و دانستہ دیا۔ اپنی کمزوری ظاہر کر کے رٹ بحال کئیے بغیر ان سے معائدے کیے پھر امریکہ کو راضی کرنے کے لئیے ان کا تورا بورا کر دیا۔

محترم راشد کامران صاحب!
کسی ریاست میں سب سے بڑھ کر خبردار اور آگاہ اس ریاست کی حکومت ہوتی ہے۔ جب آپ کی حکومت کی خبرداری اور آگاہی کا یہ عالم ہے تو حکومت کم از کم اپنی بے خبری پہ خاموشی سے پردہ تو ڈال سکتی ہے ۔ مگر پاکستانی حکومت ہر دوسرے لمحے بیان بدل ڈالتی ہے اور ہم سارے عالم میں تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اور حکومتی منافقت کو کھلی چھٹی ہے اور کنفیوزن تو خود حکومت جان بوجھ کر پیدہ کرتی ہے ابھی ایک رائے عامہ تیار نہیں ہو پاتی اور پالیسی بدل جاتی ہے، تو ایسے میں پاکستان سے ہمدردی رکھنے والے سادح لوح لوگ کا کینفیوز ہونا اور کسی بھی حکومتی فیصلے پہ کینفیوزن کا شکار ہو جانا اچھنپے کی بات نہیں۔ اچنھپے کی بات ہمارے نزدیک یہ ہے کہ آپ کمال ہوشیاری سے انھیں منافق کہہ دیتے ہیں۔ آخر آپ کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں۔؟ آپ اس بارے میں بھی وضاحت فرما دیتے تو اس لمبی چوڑی بحث سے بچا جاسکے۔

خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

سید مسعود حیدر

May 31st, 2009 at 12:31 pm    


آج کا ھر سیاست دان چاھے ملا ھو یا ٹھلا سب منافقت میں پی۔ایچ۔ڈی کر چکے ھیں۔مگر فضل الشيطان تو ڈاکٹر اف منافقت ھے،، 60 سال سے ھماری قوم جن لوگوں پر اعتماد کر رھے تھے انہوں نے پاکستان کے غریب عوام سے نہ صرف دھوکہ کیا بلکہ ان کے بنیادی حقوق پر بھی ڈاکے ڈالنےسے نہیں چونکے۔یہی وجہ ھے کہ آج پاکستان کا غریب خود کشیاں کرنے پر مجبور ھو گئے ھیں۔پاکستان میں لیڈر شپ کا تصور ہی ختم ھو چکا ھے۔پاکستان میں صرف دو طبقے ھیں۔ایک لوٹنےوالا اور دوسرا انتہائ بے بسی کی حالت میں لٹنے والا۔ صرف دو قومیں ہیں ایک امیر اور دوسرا غریب۔آپ اخباروں میں صرف سیاست دانوں
کی خبریں ،جاگیرداروں کی پٹوسیاں نہ دیکھاں کریں بلکہ یہ دیکھا کریں کہ ایک طرف ایک باپ اپنے بچوں کو عید پر نئے کپڑے نہ دے سکنے پر خود کشی کرتا ھے اور دوسری طرف ھمارے لیڈر چائنیز اور اٹالیین کھانے کھا رھے ہوتے ھیں۔ایک طرف ایک ماں اپنے بھوکے بچوں کو اس لیے قتل کر رہی ہے کہ اب وہ بچوں کو کھانہ نہی دے سکتی تھی اور بچے رو رو کر کھانہ مانگتے تھےاور دوسری طرف ایک صاحب اپنے گھو ڑوں کو سیب کا مربع اور کتوں کو پیزا کھلانے کا دعوی کر رہے تھے۔۔ اب آپ سو چیں کہ ھمارا ملک کدھر جا رہا ہے ۔کہ حکمران طبقہ کروڑوں کا قرض بنک سے لیتا ہے( جو آپکے پیسے ھیں)اور معاف کروا لیتا ہے،اور دوسری طرف ایک غریب نوجوان 2 لاکھ قرضہ لیتا ھے ایمانداری سے کاروبار کرتا ھے
مگر نقصان کر لیتا ھے ۔بنک والے پولیس کے ساتھ آتے ہیں اور غیرت مند نوجوان بوڑھے باپ کو پکڑ لے جاتے ہیں اور وہ نوجوان ایسی وجہ سے خود کشی کر لیتا ہے۔اور کتنی سچی خبریں سناؤں آپ کو۔ کتنی بہنوں کی بے حرمت لاشیں آپ کو دیکھا ؤں۔کتنی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی چیخیںآپکو سناؤں۔وہ عارفوالا کی 10 سالہ
معصوم بچی مرتے وقت کتنا چیخی ھو گی جب ایک مقامی ایم۔پی۔اے۔اپنے حواریوں کے سا تھ اس کو ھوس کا نشانہ بنا رھا تھا اور پھر اس بچی کی روح کتنی تڑپی ھو گی جب وھاں کے تھانے نے اس ظالم کے خلاف مقدمہ درج کرنے انکار کر دیا
اور بچی کے والد کو پیسے لیکر واقعے کو ختم کرنے کا وگرنہ خطرناک نتائج کی دھمکی
دی۔اور اس غریب باپ کو انصاف کیلئے میڈیا کا سہارا لینا پڑا۔اور معلوم نہی کہ میڈیا کا سہارا اس کے کام آیا کہ نہی۔ یہ جو آپ کو سنا رہا ہوں اس کو صرف سنیں
محسوس کریں۔ اور اس فضول باتون میں وقت ضائع کرنے کی بجائۓ غریبوں۔بےبسوں کے حالات تبدیل کر نے کا سوچیں اور حل بتایئں۔میرا خیال
اور سرچ یہ ھے کہ پاکستان میں بسنے والے غریب لوگ اس حد تک کمزور کرکے
دبا دیئے گئے ھیں کہ خوف کے مارے ظلم کی داستان سنا نے سے بھی ڈرتے ھیں۔یہاں تک کہ جب میں نے اس طرح کی باتیں کرنی شروع کیں تو میرے ایک ھمدرد دوست نے مجھے کہا کہ تم جو کہ رھے ہو وہ بلکل سچ ھیں مگر کھلے عام
ایسی باتیں کرنے والے بہت جلد میسنگ پرسن،بن جاتے ھیں۔اور ان کا پتہ بھی
نہی چلتا ۔تو میرے دل میں خیال آیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں مدد کیلئے پکارا
جائے۔ کیونکہ صرف اب پاکستانیوں کا یہی ایک طبقہ ھے جو ملک کے ظالم نظام کے خونی پنجوں کی زد سے باہر ھے۔اور اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی پاکستان کے
غریب عوام کی مدد اور رہنمائ کیلیے متحدد ھو جا ئیں تو پاکستان میں انقلاب
آسکتا ھے۔ اس کام کا آغاز جاپان سے شروع کر دیا ھے۔ اور تنظیم کا نام
غریب عوام پاکستان فاؤنڈیشن(گیپ فاؤنڈیشن ) رکھا ھے تمام دنیا میں مقیم پاکستانیوں تعاون کی اپیل ھے۔00819033139702 پر فون
0081296350398 پر فیکس یا مسعودپک؛؛؛ یاھو۔کوم پر میل کرکے
اپنی تجاویز دیں آپکی نوازش ہوگی
سید مسعود حیدر ھاشمی

عبداللہ

June 3rd, 2009 at 12:03 pm    


ہاشمی صاحب دبے ہوئے لوگ تو پھر بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ایک نہ ایک دن اصل مسلہ تو بٹے ہوئے لوگوں کا ہوتا ہے لیکن اللہ کی ذات سے امید ہے کہ بٹے ہوئے لوگ بھی انشاء اللہ ایک دن جڑ جائیں گے اس فرعونی نظام کے لیئے بھی اللہ نے کہیں نہ کہیں ایک موسی ضرور پیدا کیا ہوگا جو اس نطام کو اندر سے تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا انشاء اللہ،

اردو شاعری

June 6th, 2009 at 12:48 pm    


مجھے افسوس صرف اس بات کا ہے کہ آپ نے فضل الرحمن نامی انسان کے روپ میں کسی اور شے کو مولانا کیوں لکھا۔۔۔۔۔۔۔

اور فضل الرحمن سے میرا اختلاف صرف اتنا ہے کہ اپنی سیاست چمکانے کے لیے اپنی دینی علمیت کو کیوں استعمال کرتا ہے

اردو بلاگ

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website