سافٹ ویر پائریسی۔ ایک مکروہ فعل ؟

سافٹ ویر پائیریسی کے حوالے سے یاسر عمران مرزا نے اپنے بلاگ میں کچھ نکات پیش کیے۔ افتخار اجمل صاحب نے اگلے روز اپنے بلاگ میں اسی سلسلے میں اپنا موقف بیان کیا اور اسی روز باذوق نے بھی اپنے بلاگ میں اس سلسلے کو موضوع بنایا۔ بلاگرز کے ساتھ ساتھ مبصرین نے بھی اس معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور متعلقہ اور غیر متعلقہ حوالاجات اور دلائل سے اپنے موقف کا خوب دفاع کیا۔ اب تک کی بحث میں چار مختلف قسم کے خیالات پیش کیے گئے ہیں۔

– اول وہ لوگ جو سافٹ ویر پائیریسی کو کلی طور غلط مانتے ہیں اور اسے چوری ہی سمجھتے ہیں۔
– ایک حلقہ سافٹ پائیریسی کو کسی طور غلط نہیں سمجھتا اور اسے کسی بھی جرم کا درجہ دینے کے خلاف ہے۔
– ایک طبقے کا کہنا ہے کہ استحصالی نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے پائریسی وقت کی ضرورت ہے۔
– اور ایک مختلف فکر کے لوگوں کا ماننا ہے کہ سافٹ ویر لائسنسنگ پالیسیز انتہائی ظلم پر مبنی ہیں اور وہ ان پالیسیز کے خلاف ہیں لیکن پائیریسی کو بہر حال غلط سمجھتے ہیں۔

یہ مضمون ضرورت سے زیادہ طویل ہے اس کے باوجود کئی پہلو زیر بحث نہ آسکے۔ میری گزارش ہوگی کہ اپنی رائے کے اظہار سے پہلے مضمون کو مکمل پڑھا جائے اور ساتھ ساتھ ان بلاگز کو جن کے لنک پہلے پیرائے میں فراہم کیے گئے ہیں۔

ذاتی طور پر میں اولین مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہوں اور کسی بھی دوسری چیز کی چوری کی طرح ٹیکنالوجیز اور غیر مادی اشیاء کی چوری اور ان کے غیر قانونی استعمال کو غلط سمجھتا ہوں اور اسی نقطہ نظر کی حمایت اس پوسٹ کا اولین محرک ہے۔ اس پوسٹ کا مقصد محض دلائل سے اس بات پر قائل کرنا ہے کہ سافٹ ویر پائیریسی دراصل چوری ہی ہے جو دینی، اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے ایک مکروہ اور قابل دست اندازی قانون فعل مانا جاتا ہے۔ اس پوسٹ کا دائرہ کار سافٹ ویر تک مخصوص رکھا گیا ہے لیکن کئی دلائل کا اطلاق دوسری ڈیجیٹل پراڈکٹس پر بھی کیا جاسکتا ہے۔

کئی لوگوں کے نزدیک سافٹ ویر کی مادی حیثیت ایک سی ڈی تک محدود ہے اور اس غیر مادی حالت میں ہونے کی وجہ سے وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس طرح آپ کے کمپیوٹر سسٹم میں لگا پراسسیسر، مدر بورڈ، ہارڈ ڈسک اہم ہیں اسی طرح ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا جانے والا سافٹ ویر بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح باقی چیزوں کی مختلف کوالٹی آپ کے کمپیوٹر سسٹم کی قیمت کے اتار چڑھاؤ کا باعث بنتی ہیں اسی طرح سافٹ ویر کا چناؤ بھی کمپیوٹر سسٹم کی قیمت کا حصہ ہی ہوتا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ وہ ایک غیر مادی حالت میں موجود ہے آپ اس کی چوری کو جائز نہیں کہ سکتے۔ جس طرح باقی چیزوں کی تیاری اور ترسیل میں ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے سافٹ ویر کی تیاری اور ترسیل تک کے مرحلہ میں اسی طرح کے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر جائز یا ناجائز منافع کمایا جاتا ہے۔ اگر ایک پراسیسر کی قیمت آپ کی قوت خرید سے باہر ہو یا آپ کے نزدیک انتہائی زیادہ ہو یا آپ کے نزدیک انٹیل نے اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے تو کیا اس پراسیسر کو چرالینا آپ کی نظر میں درست ہے؟ اگر نہیں تو سافٹ ویر کو بھی اسی درجے میں رکھ کر ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر اس کی قیمت جائز یا ناجائز ہماری جیب سے تجاوز کرتی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ کسی بھی چیز کی قیمت چوری کا جواز نہیں بن سکتی۔

دینی نقطہ نگاہ سے اگر ہم مذہب اسلام کو دیکھیں تو یہ بات ہمارے لیے باعث خوف بننی چاہیے کہ چوری انتہائی مکروہ فعل مانا جاتا ہے اور اس کی انتہائی سزائیں بہت سخت ہیں۔ ذاتی طور پر میں ان فتاوی کے حق میں نہیں جس میں کس بھی بنیاد پر چوری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس موقف کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قحط والے واقعے سے دی جاسکتی ہے جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھوک کی وجہ سے چوری پر حد جاری نہیں کی لیکن جرم کا ارتکاب بہر حال ہوا اور کسی نے محض قحط کی وجہ سے چوری کو جائز قرار نہیں دیا۔ یہ بات نہایت اہم ہے اس لیے اس کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ کسی حرام فعل کو جائز قرار دینا اور بات ہے اور کسی مخصوص حالت میں حد جاری نہ کرنا اور بات۔ اور میرے ناقص مطالعہ کے مطابق کسی بھی حالت میں دین اسلام میں چوری کرنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ کئی مواقع پر سخت حالات کی وجہ سے محض حد جاری نہیں کی گئی اور اس سے اگر کوئی یہ مطلب نکال لے کہ نامساعد حالات میں جرم کرنے کی اجازت ہے تو یہ بات ناقابل قبول اور غیر منطقی معلوم ہوتی ہے مزید یہ کہ “نامساعد حالت” کی تشریح شخص پر چھوڑ دینا تو ایک قانونی سقم ہوگا اور کئی جرائم کے لیے اس بات کو جواز بنایا جائے گا۔

معاشی نقطہ نگاہ سے کسی بھی کاروبار کا بنیادی مقصد نفع حاصل کرنا ہی ہوا کرتا ہے۔ کارپوریشنز اپنے منافع کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کارپوریشنز کے اس اثر رسوخ کے رد یا کاؤنٹر کے لیے ہر ملک میں صارفین کی تنظیمیں اور سرکاری ایجنسیاں ہوتی ہیں جو بلا جواز شرائط اور کارپوریشن کے غیر مقبول افعال پر براہ راست قانونی چارہ جوئی یا عوام کو اس سلسلے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ یورپی یونین میں بغیر میڈیا پلیرز کی ونڈوز اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگر کسی کو کارپوریشنز کے استحصالی نظام سے اختلاف ہے تو اس کے لیے بہترین حل قانون سازی اور صارفین کا اتحاد ہی ہوسکتا ہے نہ کہ سافٹ ویر کی چوری۔ آئیڈیل صورت حال میں تو یہ سلسہ توازن میں رہنا چاہیے لیکن کسی بھی نظام کی طرح اس میں بھی سقم موجود ہیں جس کی وجہ سے کہیں کارپوریشنز کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور کہیں صارفین کو کارپوریشنز کی بے جا شرائط کو ماننا پڑتا ہے۔ جو بات اہم ہے کہ اگر آپ کسی بھی سافٹ ویر کو استعمال کرنے کی شرائط تسلیم کرتے ہیں تو اس کے بعد اس کیے گئے وعدے کی پاسداری بھی قانونی، مذہبی اور اخلاقی لحاظ سے اہم ہے۔

آخری بات جس کو جواز بنایا جاتا ہے وہ “مجبوری” ہے۔ اول تو آج کی تاریخ میں کسی بھی سافٹ ویر کو استعمال کرنا مجبوری نہیں۔ کوئی بھی عام استعمال کا ایسا کمرشل سافٹ ویر موجود نہیں جس کا متبادل اوپن سورس، میعاری اور مفت سافٹ ویردستیاب نہ ہو۔ لہذا مجبوری بھی کسی صورت جواز نہیں۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں انٹر نیٹ کا استعمال نیٹ اسکیپ کے ذریعے کیا جاتا تھا، مائکروسافٹ نے اس کو ختم کرنے کے لیے انٹر نیٹ ایکسپلورر ونڈوز میں شامل کردیا جس سے براؤزر مارکیٹ میں اس کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ اس اجارہ داری کو پسند نہ کرنے والوں کے پاس دو راستے تھے۔ اولا وہ ونڈوز کی خوب چوری کریں دوم وہ متبادل فراہم کریں۔ خوش قسمتی سے انہوں نے دوسری راہ کا انتخاب کیا اور آج اس کا نتیجہ فائر فاکس، اوپیرا اور کروم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بہت سے میعاری سافٹ ویر کی ابتدائی محرک اس کی قیمت سے زیادہ اس کا کلوزڈ سورس ہونا تھا۔

آخر میں وہی فلسفہ کہ کسی ایک غلط کو دوسرے غلط کا جواز بنانا بذات خود غلط ہے۔ جرم بہر حال جرم ہے چاہے محرک کچھ بھی رہا ہو اور کسی مخصوص حالت میں حد کا لاگو نہ ہونا جرم کو حلال نہیں کردیتا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پائیریسی اجارہ داری کا توڑ ہے تو انہیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پائیریسی اجارہ داری کی مضبوطی کا باعث ہے کیونکہ آپ غیر قانونی ہی سہی صارفین کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، متبادل کا استعمال ہی اجارہ داری کو سب سے بڑا دھچکا ہے اور ان تمام باتوں کے باوجود آپ پائیریسی کو حلال سمجھتے ہیں تو کسی بھی عرب اسرائیل جنگ کو اس کا جواز بنالیجیے آپ کا ذہن قبول کرلے گا۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (20)

میرا پاکستان

August 4th, 2009 at 1:41 pm    


ہم بھی آپ کے ہمخیال ہیں جو ہم نے افتخار اجمل صاحب کی پوسٹ پر لکھا ہے۔ اس کی کاپی یہاں‌نقل کیے دیتے ہیں۔ اجمل صاحب کے جواب سے تو یہ لگتا ہے کہ جو وہ کہنا چاہ رہے تھے وہ ہم سمجھے نہیں اور ان کی تحریر کا غلط مطلب لے لیا۔
تبصرہ
یہاں‌پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر دوسرے لوگ چوری کرتے ہیں تو ہماری چوری بھی جائز ہے۔ یہ مانا کہ اس وقت ساری دنیا میں سافٹ ویئر کی نقل بک رہی ہے، آڈیو اور ویڈیو کی چوری ہو رہی ہے، دو نمبر کی الیکٹرونکس مارکیٹوں میں دستیاب ہیں مگر ان کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام نے ان غلط کاموں کی اجازت دے دی ہے۔ اسلام میں چوری چوری ہی ہے چاہے کوئی مجبور کرے یا عام آدمی ہاں چوری کی سزا مختلف ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو کام ہم غلط کرتے ہیں اس کا جواز ڈھونڈنے میں دیر نہیں لگاتے اور جو کام ہم غلط نہیں کرتے اس پر فتوے پہ فتوے جاری کردیتے ہیں۔ یہی ہم مسلمانوں کی خرابی ہے۔ ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات مانتے ہیں مگر اسے لاگو کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ہمیں وہ اسلام پسند نہیں‌جو ہماری ناجائز خواہشات کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
لگتا ہے اجمل صاحب پائریٹڈ ساوفٹویئر استعمال کر رہے ہیں تبھی انہوں نے اسے جائز قرار دینے کیلیے اتنا لمبا مضمون لکھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ سر عام تسلیم کریں کہ جو کام ہم کر رہے ہیں وہ اسلام میں ممنوع ہے مگر ہماری مجبوری ہے۔ یہ کوئی منطق نہیں کہ بڑے بڑے امریکہ جیسے ملک غلط کام کرتے ہیں تو پھر پاکستان جیسے چھوٹے ملک چوری کیوں نہ کریں۔ اس طرح برائی کا خاتمہ نہیں ہو گا بلکہ یہ مزید پھیلے گی۔

DuFFeR - ڈفر

August 4th, 2009 at 2:51 pm    


میں تو تیسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہوں اور میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ
اصلی کتابیں اور سافٹ وئیر بہت مہنگے ہیں اور بہت کم لوگ ان کو افورڈ کر سکتے ہیں
لیکن جو کر سکتے ہیں وہ اصلی ہی استعمال کرتے ہیں کہ اصل نقل کے فرق سے آگاہ ہیں
لیکن جو نہیں کر سکتے میرے‌خیال میں ان کے لئے بالکل جائز ہے
علم کو صرف اس بنا پر نہیں روکنا چاہئے اور نا روکا جا سکتا ہےکہ کوئی اس کی قیمت/یا فیس ادا نہیں کر سکتا

راشد کامران

August 4th, 2009 at 3:13 pm    


ڈفر صاحب۔ پیٹنٹ اور پراڈکٹ کا فرق ملحوظ رکھیں تو شاید آپ اس اپروچ پر نظر ثانی کریں۔ بات علم سے روکنے کی نہیں بات ایک پراڈکٹ کی چوری ہے؛ علم کا تو معاملہ ہی دوسرا ہے اس کے لیے جدوجہد کرنی لازمی امر ہے اور کئی ذرائع سے حاصل کیا جاسکتاہے۔

خرم

August 4th, 2009 at 4:44 pm    


راشد بھائی یہ ناچیز آپ کی رائے اور دلائل دونوں سے متفق ہے۔
ڈفر میرے بھائی۔ اگر مہنگے سافٹویر نہیں‌لے سکتے تو اوپن سورس استعمال کرلو۔ اب اگر انٹرنیٹ کنکشن مہنگا ہوگا تو کیا کُنڈیاں ڈال کر ہمسائے کی فون لائن استعمال کرنا جائز ٹھہرے گا؟


میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ اور جناب افتخار اجمل صاحب ۔ کے بلاگ پہ اس بات کا ذکر کرچکا ہوں۔ اسلام میں چوری کو مکروہ فعل ہی نہیں بلکہ حرام فعل قرار دیا گیا ہے۔ کچھ صورتوں پہ چوری کے لئیے حد جاری نہیں ہوتی مگر سزا البتہ ضرور ہے ۔ اور اگر سزا سے صرف نظر بھی کر لیا جائے تو بھی چوری کرنا اسلام میں جائز ثابت نہیں ہوتا۔ اب پاکستان کے معروضی حالات میں اتنا مہنگا سوفٹ وئیر ہر کوئی خرید کر استعمال نہیں کرسکتا یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ اس کے لئیے سب کے لئیے کوئی قابل قبول حل نکالا جاسکتا ہے،

شکاری

August 4th, 2009 at 9:57 pm    


میں بھی پائریسی کو چوری ہی تصور کرتا ہوں اور اپنے استعمال کے لیے حتٰی امکان اوپن سورس ڈھونڈھتا ہوں اگر کوئی اوپن سورس نہ ملے تو پھر اتنی سی گنجائش تو بنانی پڑتی ہے بہرحال یہ میری غلط فہمی ہے چوری چھوٹی ہو یا بڑی چوری ہی ہوتی ہے۔

جعفر

August 5th, 2009 at 12:30 am    


گرمی اور حبس کی کارستانیاں ہیں جی۔۔
موسم اچھا ہولینے دیں، سب شبھ شبھ لکھنا شروع کردیں گے۔۔۔

محمد وارث

August 5th, 2009 at 1:09 am    


میرا تعلق چوتھے گروہ سے ہے۔
نہ صرف لائسنسنگ پالیسیز ظالمانہ ہیں‌بلکہ کاپی رائٹس قوانین بھی انتہائی مکروہ اور ظالمانہ ہیں، ہر وہ چیز جس سے علم و فضل کے پھیلاؤ پر ‘زر’ کی مہر لگ جائے وہ باطل ہے۔لیکن جب تک یہ قوانین موجود ہیں ان کو توڑنا غلط ہے، ہاں‌ان کو ختم کروانے کیلیے آواز ضرور بلند کریں۔
اس سلسلے میں، میں پروجیکٹ گٹن برگ کی مثال دوں گا، اب تک ہزاروں کتب وہ ویب پر عام استفادے کیلیے رکھ چکے ہیں لیکن سب کی سب پبلک ڈومین میں ہیں۔ کاپی رائٹس قوانین کو نہیں توڑتے لیکن ان کے خلاف بھر پور آواز ضرور بلند کرتے ہیں۔

یاسر عمران مرزا

August 5th, 2009 at 1:48 am    


راشد صاحب
سافٹ ویر پائریسی کی بات تو ہو گئی، لیکن کتابوں کی نہیں ہوئی
کتابوں کی پائریسی کی متعلق دلائل بھی دوسرے ہیں

معیاری کتابوں کی متبادل کوٕئی اوپن سورس کتابیں موجود نہیں، اگر انٹرنٹ پر ان کے متبادل تحقیق موجود بھی ہے تو ہر طالبعلم کے پاس کمپیوٹر موجود نہیں اور نہ انٹرنٹ کنکشن
کیا کتابوں پر اجارہ داری قائم کرنا، علم روکنے کے مترادف ہے؟ کیا علم روکنا جائز ہے
کاپی شدہ کتب خریدنا طلبا کی مجبوری ہے، اگر وہ ایسی کتب نہ خریدیں تو فعل ہو جائیں، اور بہت سے طلبا طالبات ایسے ہیں جن کو ان کے والدین اس آس پر پڑھاتے ہیں کہ وہ پڑھائی کے فورا بعد نوکری ڈھونڈ کے گھر کا خرچ چلائیں گے۔

راشد کامران

August 5th, 2009 at 2:21 am    


یاسر صاحب کتابوں‌کے متعلق تو میں اپنا صرف نظریہ بیان کرسکتا ہوں‌ جو میں نے آپ کے بلاگ پر عمر صاحب کے تبصرے کے جواب میں‌کیا تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ کتب خانے یا لائبریری اس سلسلے میں سب سے اہم ہوتے ہیں اور ہر پڑھے لکھے معاشرے میں جو لوگ کتاب خریدنے کی سکت نہیں رکھتے یا کتاب نہیں خریدنا چاہتے وہ کتب خانوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اکثر علم دوست ملکوں میں بک شاپس بھی ایک طرح کی لائبریری ہوتی ہے جہاں آپ کتاب بغیر خریدے پڑھیے اور شیلف میں واپس رکھ کر گھر کی راہ لیجیے کوئی آپ کو منع نہیں کرے گا۔ ایک ثانیے کے لیے آپ اپنے آپ کو ایک لکھاری کی جگہ رکھیں اور یہ گمان کریں کہ اپنی زندگی کے کچھ سال آپ ایک کتاب لکھنے میں لگاتے ہیں جس کا بنیادی نہیں تو ثانوی مقصد معاشی بھی ہو اور ان چند سالوں میں آپ نے کتاب لکھنے کی وجہ سے کوئی نوکری بھی نہ کی ہو اور کسی قسم کی اسکالر شپ بھی دستیاب نہ ہو تو ایسے میں آپ کی شائع شدہ کتاب کی نقل کوڑیوں کے داموں بکے اور اصل کتاب جس سے آپ کو اپنے پچھلے سالوں‌ کی محنت کا معاوضہ ملنا تھا اس نقل کی وجہ سے نہ بک سکے تو پھر آپ کی کیا رائے ہوگی؟

راشد کامران

August 5th, 2009 at 2:34 am    


افضل صاحب آپ کے تبصرے پر تو جواب اجمل صاحب نے اپنی تازہ پوسٹ میں دیا ہے۔ جھے خوشی ہے کہ آپ ہم خیال ہیں۔

خرم صاحب آپ کی آمد کا شکریہ۔ میں بالکل یہی بات بار بار زور دے کر کہہ رہا ہوں کہ سافٹ ویر کی چوری کا جواز ہی کوئی نہیں کہ متبادل فری سافٹ ویر
باآسانی دستیاب ہے اور میعاری بھی ہے۔

جاوید صاحب آپ کے تبصرے کا شکریہ۔ دیکھیے پاکستان کے معروضی حالات کے حوالے سے تو اوپن سورس ایک نعمت کبرٰی کا درجہ رکھتی ہے جہاں نا صرف یہ کہ سافٹ ویر دستیاب ہیں بلکہ انہیں اپنے انداز میں‌ڈھالنے کی پوری آزادی بھی۔ محمد علی مکی کی کاوشیں‌ نہ معلوم کیوں یار لوگوں‌ نے فراموش کردیں‌ جنہوں نے بارہا بہترین مضامین لکھے اور سافٹ ویرز اردو تک میں ڈھالے ہیں۔ اب اگر ان تمام مفت سہولیات کے بعد بھی اسرار یہی ہو کہ جی مجھے تو بی ایم ڈبلیو ہی چاہیے تو کیا آپ کچھ کرسکتے ہیں؟

شکاری صاحب ۔۔ آپ کی سوچ میری نظر میں بالکل درست سمت میں‌ ہے۔

جعفر صاحب۔۔ حبس ہے تو باران رحمت بھی برسے گا۔۔

وارث صاحب آپ تو استادوں کی جگہ ہیں۔۔ کتاب کی پائریسی پر کچھ لکھیے۔۔۔ کوئی ایسی راہ نکالیں کہ مصنف، ناشر اور قاری سب کا بھلا ہو۔ میری نظر میں تو کتاب سے حاصل کیا گیا معاشی فائدہ اگر مصنف تک نہ پہنچا تو گناہ سب پر۔

یاسرعمران مرزا

August 5th, 2009 at 4:45 am    


وہاں واقعی پائریسی تباہ کن ہو گی، یعنی کتب کی پائریسی بھی غلط ہو گی، لیکن اگر صورت حال اس کے برعکس ہو
یعنی مصنف، اپنی کتاب سے لاکھوں کما چکا ہو، یا وہ ادارہ جس نے کتاب چھاپی ہو وہ بھی بہت منافع کما چکا ہو، مگر طلبا اس مالی حالت میں نہ ہوں کہ مہنگی کتب خرید سکیں، پھر کیا کہیں گے آپ
آپ کی اکژباتوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ آپ ایک ترقی یافتہ ملک میں رہائش پذیر ہیں ، مثال کے طور پر پاکستان میں لائبریریوں کی وہ صورت حال نہیں جو امریکہ میں ہے، اگر ایک یونیورسٹی کے 70 فیصد طلبا جو کتاب افورڈ نہ کر سکتے ہوں اور شہر کی واحد لائبریری میں روز جمع ہو جائیں تو ؟
پڑھے گا کون اور سمجھے گا کون؟
افضل صاحب بھی امریکہ میں رہائش پذیر ہیں اس لیے وہ بھی وہاں کے حساب سے بات کرتے ہیں، آپ صاحبان سے گزارش ہے کہ پاکستانی ماحول کے مطابق بات کریں، اگر میری بات بری لگے تو پیشگی معذرت
شکریہ

یاسر عمران مرزا

August 5th, 2009 at 4:46 am    


میرے ایک دو فقروں میں لفظی غلطیاں ہیں ، برائے مہربانی درست کر دیجیے گا۔

نعمان

August 5th, 2009 at 5:55 am    


میرے خیال میں سوال یہ تھا کہ اسلام میں سوفٹوءر پائریسی حلال ہے کہ حرام۔ اسلام میں چوری جرم ہے، مگر اسلامی معاشی قوانین کے تحت ایسی شرائط کے ساتھ سوفتوئر بھی نہیں بیچے جاسکتے۔ تو اگر اسلامی عدالتیں اس بات کا فیصلہ کرتیں تو یقینا ان سوفٹوئر کی فروخت پر پابندی لگ جاتی۔ اور ان اداروں کو یورپی یونین کی طرح اسلامی عدالت میں اپنا کیس پیش کرنا پڑتا اور صرف اسلامی نظام عدل کے تحت آنے والے ریجن کے لئے الگ قیمتوں یا شرائط پر سوفٹوئر فروخت کرنا پڑتا۔

لحاظہ سوفٹوئر پائریسی جرم ہی ہے۔

فیصل

August 5th, 2009 at 1:04 pm    


جی غلط بات تو غلط ہی ہے۔ آپکو قیمت پر اعتراض ہے تو نہ خریدیں، بلکہ چوری کر لیں‌لیکن اسکا جواز کوئی نہ ڈھونڈیں۔
کتاب کی چوری تو اور بھی بری کہ اسطرح تو لوگ لکھنا ہی چھوڑ دیں۔ محدود مقدار میں طلبا کے استعمال کرنے کو کاپی کی اجازت تو ترقی یافتہ ممالک بھی دیتے ہیں بلکہ کورس ماڈیول میں مختلف کتابوں کے اہم حصے کی کاپیاں موجود ہوتی ہیں لیکن یہ سب اجازت لینے کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس میں اور ہمارے ہاں کے چوری شدہ سستے کاغذ پر چھپے پیپر بیک ایڈڈیشنز میں فرق ہوتا ہے۔
کم از کم میری کتاب تو کوئی چوری کرے تو مجھے بہت برا لگے گا، ہاں شائد یار لوگوں‌کا ظرف مجھ سے بہت وسیع ہو گا۔

عمر احمد بنگش

August 5th, 2009 at 1:16 pm    


بات کافی پھیل گئی ہے۔ یاسر عمران صاحب کے بلاگ پر جب پہلی بار یہ بحث‌ہوٕئی تھی تو کتابوں‌کے بارے جتنی بھی بحث‌ہوٕئی، اس سے جو بات ثابت ہوئی، یا کم از کم میں‌سمجھا تھا وہ یہ تھی کہ کتب خانوں‌سے جب آپ کتابیں‌ ادھار لے کر پڑھتے ہیں‌اور پھر واپس کر دیتے ہیں‌تو یہ جائز ہے۔ اس سے میرے ذہن میں‌جو بات‌آئی تو وہ یہی تھی کہ سرٹیفائیڈ‌چوری والی کہ قانون کچھ ایسے بنایا گیا ہے کہ ذاتی استعمال کے لی کتب خانے ایجاد ہو گئے،‌آپ کتب خانوں‌کو کچھ قیمت تو ادا نہیں‌کرتے اور پھر کتب خانوں‌کو اس طور استعمال کرنے کی اجازت بھی ہے۔
اسی طرز پر اگر سافٹ‌وئیر کی بات کی جائے تو بلاشبہ کوئی شخص‌اس بات سے انکا ر نہیں‌کرے گا کہ چوری جیسے بھی ہو، غلط ہے۔ لیکن کیا ایسا نہیں‌ہے کہ کتاب کی طرح‌سافٹ‌وئیر کا بھی زاتی مقاصد کے لیے استعمال جائز قرار دینا چاہیے۔ ناول پڑھ کر آپ کتب خانے میں‌رکھ دیجیے اور دوسرے دن پھرآ جائیے، میں‌سافٹ‌وئیر بھی تو ایسے ہی استعمال کرتا ہوں‌۔ روز استعمال کر کے رکھ دیتا ہوں‌اور دوسرے دن پھر تیار۔
اب جبکہ آپ بات اوپن سورس کی کرتے ہیں تو جناب، مجھے یہ تو بتائیں‌کہ اس نشے کا کیا کروں‌جس کی رو سے میں‌پائریٹیڈ‌سافٹ وئیر استعمال کرنے کا عادی بن چکا ہوں، کوئی “صداقت کلینک”ہے جو میری مدد کر سکے اس طور؟

راشد کامران

August 5th, 2009 at 2:28 pm    


نعمان صاحب۔ میں نے مقدمہ اسی طرح‌پیش کیا کہ کسی طرح سافٹ‌ پائیریسی کو چوری کا مثل قرار دے دوں۔ کیونکہ اگر اس پر مناسب دلائل پیش کردیے جائیں اور یہ طے ہوجائے کہ سافٹ ویر پائریسی دراصل چوری ہی ہے تو پھر اس سے آگے کا تمام حساب کتاب ہم لوگوں کے علم میں ہے۔

فیصل صاحب ۔۔ بارہا میں یہ باور کرانے کی کوشش کرچکا ہوں کہ جو کتاب ہمارے یہاں نقل کی جاتی ہے وہ تعلیم کے لیے نہیں بلکہ تجارتی مقاصد کے لیے نقل کی جاتی ہے جو سراسر غلط اور بددیانتی ہے۔ اس کے لیے نہ تو پبلشر اور نہ ہی قانونی ملکیت رکھنے والوں سے اجازت طلب کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں منافع کا حصہ دیا جاتا ہے بلکہ ان کے تو علم میں بھی نہیں ہوگا کہ اسطرح کچھ ہورہا ہے۔

عمر صاحب۔۔ سافٹ ویر بھی اس ماڈل پر واقعی دستیاب ہیں۔ مثلا لائبریریوں میں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی سہولیات بھی فراہم کی جاتیں ہیں‌جنہیں آپ استعمال کریں اور گھر کی راہ لیں۔ اور وہ سافٹ ویر باقاعدہ لائسنس ہوتے ہیں۔ یاسر صاحب‌ نے ترقی یافتہ ملک کا نکتہ اٹھایا ہے جس کی طرف میں دوسرے پیرا میں آرہا ہوں۔

یاسر صاحب‌ آپ نے اچھا کیا کہ یہ نکتہ اٹھایا کہ ہم ترقی یافتہ معاشروں کی بات کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے یہاں تک کیسے پہنچے؟ اگر ہم پائیریسی پر قدغن لگاتے ہیں تو اس سے لائبریریوں اور اصلی کتابوں‌کی طلب بڑھے گی۔ تو پیزا ہٹ‌، کے ایف سی کی طرح‌بارنس اینڈ نوبل اور بارڈرز بکس بھی پاکستان کا رخ‌کریں‌گے اور ساتھ ساتھ وہ کلچر لے کر آئیں گے جس کی طرف میرا اشارہ ہے۔ مسلسل اگر ہم سہولت کے نام پر پائریسی کو فروغ دیں‌گے تو نہ ہمارے کتب خانے آباد ہونگے اور نہ کتاب کلچر کو فروغ حاصل ہوگا۔ باقی یہ کہ آپ کی ملکیت کی چیز سے آپ جائز جتنا منافع کمائیں یہ آپ کا حق ہے اور مذہبی و معاشرتی طور اس پر کچھ روک نہیں‌ لگائی جاسکتی کہ ایک مصنف دس لاکھ سے زیادہ منافع نہیں‌ کماسکتا جب کہ کتاب کی قیمیت مناسب ہو اور صرف طلب میں‌اضافے کے باعث منافع ہو رہا ہو۔

ابوشامل

August 6th, 2009 at 12:36 am    


میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہا ہوں کہ چوری کے لیے بھی دلیل؟؟ شاید اسی لیے کہا گیا تھا “چوری اور سینہ زوری”۔
کسی بھی رو سے آپ دیکھ لیں سافٹ ویئر پائریسی دراصل چوری ہی کی شکل ہے۔ اگر کوئی شخص سافٹ ویئر مہنگا بیچتا ہے، تو اس کی وجوہات بھی تو دیکھئے حضور! کہ اس کے 90 فیصد صارف ایسے ہیں جن سے اسے ٹکے کا فائدہ نہیں پہنچ رہا تو لازماً سافٹ ویئر بنانے والا سب کے پیسے اُن 10 فیصد ہی سے حاصل کرے گا نا جو اس سے مال خریدتے ہیں۔ میرا نظریہ ہے کہ پائریسی جتنی کم ہوگی سافٹ ویئر کی قیمتیں بھی اتنی ہی گریں گی۔
اس بحث سے قطع نظر اوپن سورس اتنا زبردست متبادل ہے کہ آپ کے پاس اس چوری کا کوئی جواز ہی نہیں رہ جاتا۔ بتائیے کون سا ایسا عام استعمال کا سافٹ ویئر ہے جسے چوری کرنا “اشد ضروری” ہو کیونکہ اس کا اوپن سورس متبادل موجود نہیں۔ پھر پاکستان میں لینکس کی ترویج کے لیے جو متعدد افراد بلکہ محمد علی مکی جیسی شخصیات، جو ذات میں ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں، موجود ہیں جنہوں نے اوپن سورس سافٹ ویئرز کی ترویج کو اپنا مقصد بنا لیا ہے تو اس صورتحال میں بدستور چوری سے چپکے رہنا، بہت افسوسناک بات ہے۔ مجھے یاد ہے عرصہ قبل مکی صاحب نے اپنی ویب سائٹ کے ذریعے پاکستان بھر میں لینکس سافٹ ویئرز اور ڈسٹروز کی ترسیل کا کام بھی کیا تھا، اس میں انہیں بڑے پیمانے پر خسارہ بھی ہوا لیکن عرصے تک وہ منصوبہ چلتا رہا پھر ان کی بیرون ملک روانگی کے باعث رک گیا۔ ایسے مخلص لوگ آپ کو “چور برادری” میں ملیں گے؟
مجھے اس بات کا بھی معلوم ہے کہ یہ چوری اندر تک سرایت کر چکی ہے لیکن کم از کم اس چوری کو چوری تو سمجھیں نا؟ جو زائد قیمت پر اپنا مال بیچ رہا ہے وہ اپنے عمل کا خود جواب دہ ہے۔ آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ آپ قیمت زیادہ ہونے کے باعث اس کا مال چوری کر لیں۔
اور ہاں! میں بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں چوری کی ونڈوز استعمال کرتا ہوں لیکن ساتھ ساتھ لینکس سے علیک سلیک بھی چلتی رہتی ہے اور اسے سیکھ رہا ہوں۔ کوشش ہوگی کہ ایک وقت ایسا آئے جب میں مستقلاً لینکس پر منتقل ہو جاؤں یا جینوئن ونڈوز اور سافٹ ویئرز خریدوں۔ لیکن آخر الذکر بہت مہنگا آپشن ہے :)

رند کے رند رہے۔۔۔ « Faisaliat- فیصلیات

September 12th, 2009 at 4:38 pm    


[…] یہ بہت سوں کیلئے اچھی خبر یوں بھی ہے کہ پاکستان میں تو سوفٹوئر کی چوری کوئی اتنا بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا لیکن اُنکے دل سے […]

محمد فیصل حسنین

February 21st, 2010 at 2:09 pm    


زبردست، بہت خوب، “ابو شامل” صاحب کیا کہنے ہیں آپ کے۔ میں خود ایک سافٹ ویئر ڈویلپر ہوں۔ مریض کا درد میرص ہی جان سکتا ہے۔ میرے خیال مِں سافٹ وہیر پائریسی کے مسئلے پر اختلاف کی بنیادی وجہ سافٹ ویر کے بارے مِں لاعلمی ہے۔ اگر لوگوں کا اندازا ہو جائے کہ ایک اچھا سافٹ ویئر بنانے میں کتنی محنت درکار ہے تو لوگ خود ہی اس کو “چوری” تسلیم کرنے لگ جائیں گے۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website