شرابی جمہوریت

افغانستان کے آنے والے الیکشن میں امریکی میڈیا کی دلچسپی سمجھ میں آنے والی بات ہے چناچہ آج کل چلتے پھرتے ریڈیو، ٹی وی پر افغانستان کے الیکشن کی خبروں پر نظر پڑجاتی ہے۔ آج این پی آر کا نمائندہ ایک افغان سیاستدان سے گفتگو کررہا تھا دلچسپ مکالمے سے ایک اقتباس قارئین کی دلچسپی کے لیے۔

افغان سیاستدان۔ جمہوریت اور مذہب ساتھ نہیں چل سکتے۔
نمائندہ۔ مثلا ایسا کیا ہے۔
افغان سیاستدان۔۔ ہمم ہمم۔۔۔۔ مثلا جمہوریت میں شراپ پینا جائز ہے لیکن اسلام میں شراب پر مکمل پابندی ہے۔ اسلیے اسلامی ملکوں خصوصاَ افغانستان میں جمہوریت اُس طرح نہیں چل سکتی۔

وہ کیا کہا کسی آزادانہ شاعر نے کہ
جمہوریت کی چڑیل میری دیوار پر بال کھولے سورہی ہے۔
فوجی سیاں آؤ۔۔ اس کو بھگاؤ۔۔ میں نہ سووں ساری رات رے۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (12)

میرا پاکستان

August 11th, 2009 at 7:54 pm    


واقعی افغانی جمہوریت اور اسلام میں بہت فرق ہے
افغانی جمہوریت میں‌کارزئی صدر بن سکتا ہے اسلام میں‌نہیں
افغانی جمہوریت میں ملک پر غیرقابض ہو سکتے ہیں‌اسلام میں‌نہیں
افغانی جمہوریت میں پوست کاشت ہو سکتی ہے اسلام میں نہیں
افغانی جمہوریت میں قابضین کیلیے جاسوسی ہو سکتی ہے اسلام میں‌نہیں

عنیقہ ناز

August 11th, 2009 at 9:37 pm    


مجھے نہیں معلوم کہ افغانستان کی معلوم تاریخ میں کس مقام پر وہاں شراب کا استعمال نہیں ہوتا رہا ہے۔ وہاں سے برصغیر پر حملہ کرنے والے مسلمان حکمراں خود اس عادت قبیح کا شکار رہے ہیں۔ اس بات پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبادیکھ۔
یہی افغان جو اسلامی جہاد کی علامت بن کر ابھرا ہے۔ پچھلے کئ سو سالوں سے اسی طرح جنگی جنون میں مبتلا ہے۔ جہاں عسکریت پسند معمولی باتوں پر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوجاتے ہوں۔اور پیسوں کی لین دین کے بعد معاملات سدھر جاتے ہوں۔ اب انہوں نے اپنے جنگی جنون کو جہاد کا نقاب پہنا دیا۔ بہت خوب۔ اسلامی افغاستان زندہ باد۔

جعفر

August 12th, 2009 at 12:04 am    


میں فیصلہ نہیں‌کرپارہا کہ تبصرہ کس پر کروں
آپ کی تحریر پر یا ایک فاضل تبصرہ نگار کے تبصرے پر
کئی سو سالوں کی خانہ جنگی؟
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
افغانوں کا درد تو چھلکا پڑرہاہے، لیکن اپنے گھر میں جو دھیں پٹاس ہورہی ہے ٹارگٹ کلنگ کے مہذب نام سے، وہ شاید شب برات کے پٹاخے ہیں، اور مرنے والے بھی شاید اداکاری کرتے ہیں، سین ختم ہونے کے بعد ہنستے کھیلتے اٹھ کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔۔۔
اور غیر مہذب، جنگلی ، غیر متمدن، بدتہذیب ہیں افغان۔۔۔۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اور شراب کی بھی خوب کہی، روشن خیال اعتدال پسندوں کو شراب کا نام سنتے ہیں‌ نجانے نشہ کیوں ہونے لگتاہے؟ یہ تو جی ہر گھر میں پی جاتی ہے ، ہر گلی میں، ہر صدی میں، ہر ۔۔۔۔۔

کنفیوز کامی

August 12th, 2009 at 4:56 am    


ہنود کے لئیے۔۔۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام
افغانی کے لئیے۔۔۔ بغل میں کلاشنکوف منہ میں اللہ اللہ
افغانی کے لئیے۔۔۔ منہ میں نسوار ہاتھ میں تسبیح

عنیقہ ناز

August 12th, 2009 at 7:20 am    


روشن خیال، ہی ہی۔ یہ روشن خیالوں کی عام سی باتیں بھی دلوں میں ٹھاہ کرکے لگ جاتی ہیں۔ ترک ویسے پاکستانیوں سے بڑی مھبت کرتے ہیں۔ لیکن میرے ایک ترک دوست نے ایکدفعہ کہا، اسوقت جبکہ مشرف نے عنان حکومت سنبھالی نہیں تھی اور آپکے نواز شریف امیر المومنین بننے کے مراحل میں تحے۔ تو اسوقت انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ تم پاکستانی اتنے منافق کیوں ہوتے ہو۔ ایسی کون سی چیز ہے جو تمہارے یہاں نہیں ہوتی لیکن تم لوگ اتنے معصوم بن کر کہتے ہو۔ اچھا ایسا بھی ہوتا ہے۔ اس ترک دوست کو صرف چھ مہینے پاکستان میں رہ کر یہ اندازہ ہوا۔ میں تو جناب اس مٹی سے پیدا ہوئ ہوں۔ اور افسوس یہ کہ میں نے آپکے ملک میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے کے باوجود ایک بہت مختلف دنیا دیکھی۔آپکو اندازہ تو ہوگا کہ میری پیدائش اعتدال پسندوں اور روشن خیالوں سےکچھ پہلے کا واقعہ ہے۔
اور جناب، خانہ جنگی ہونے میں اور وار لارڈز ہونے میں فرق ہے۔ یقین نہ ہو تو پہلے بل گیٹس کے جتنا پیسہ کمائیے اور پھرپیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔
ویسے جب لوگ افغانوں کو سود خور کہتے ہیں تو تب بھی آپکو ایسے ہی ٹھاہ کرکے لگتی ہے۔
اور ہاں یہاں کے معاملات نبیڑنے کے لئے آپکی خدمات کچھ ایسی بری نہیں ہیں۔ میں اسوقت تک کچھ اور فاضل بننے کی اہلیت نہ حاصل کرلوں۔ تاکہ ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرسکوں۔ اور آپ صحیح سے مجحے دستار فضیلت پہنائیں۔

محمداسد

August 12th, 2009 at 10:09 am    


ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ افغانستان میں الیکشن ہو کس کے درمیان رہے ہیں؟
اتنی تو وہاں سیاسی جماعتیں اور سیاسی نمائندہ موجود نہیں جتنی دوسرے ممالک کی عسکری نمائندہ موجود ہیں۔

راشد کامران

August 12th, 2009 at 12:03 pm    


افضل صاحب۔۔ افغانی جمہوریت بھی ہماری جمہوریت کا ہی کوئی چربہ ہوگی۔

جناب جعفر صاحب‌ اور محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ۔ آپ لوگوں نے اہم نکات اٹھائے ہیں لیکن میری کج بیانی کے اصل مدعا پس منظر میں‌ چلا گیا۔۔ اصل بات یہ تھی کہ قدرت جب لاکھوں‌ لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا موقع فراہم کرتی ہے تو چند لوگ اسے کس طرح‌ برباد کرتے ہیں‌ جیسے افغان سیاستدان نے کیا۔۔ ہمارے ایسے جمہوریت پسند بھی اُس موقع پر جمہوریت کے کئی نقائص واضح کرسکتے تھے کہ
آؤ ایک سجدہ کریں‌ عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

لیکن دیکھیں مرد مومن کو شراب یاد آئی تو کب آئی۔

اسد صاحب۔۔ افغانستان میں الیکشن اوبامہ اور ملا عمر کے درمیان ہورہے ہیں۔۔۔ اگر الیکشن کسی حد تک کامیاب ہوگئے تو اوبامہ کی فتح اور اگر الیکشن سبوتاژ کردیے گئے تو ملا عمر کی فتح‌ لیکن دونوں صورتوں میں عوام کی حالت میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔

راشد کامران

August 12th, 2009 at 12:07 pm    


کامی بھائی افغانی کے لیے دو دو ٹائٹل کیوں؟ ویسے دیکھیں عوام افغانی ہو یا پاکستانی یا ہندوستانی سب ہی امن سے رہنا چاہتے ہیں۔۔ یہ تو نظریات کا ملاکھڑا کھیلنے والوں نے امن سکون برباد کیا ہوا ہے اس لیے عمومی ٹائٹل نہیں‌ دینے چاہیے بلکہ خاص طبقہ کو مخاطب کرنا چاہیے۔

جعفر

August 13th, 2009 at 12:45 am    


راشد صاحب سے معذرت کہ بات کسی اور طرف چلی گئی
لیکن۔۔۔
چلیں چھوڑیں۔۔۔

DuFFeR - ڈفر

August 13th, 2009 at 7:53 am    


افغان سیاستدان کو لاس ویگاس کا ایک چکر لگوا دیا جائے تو امید ہے کہ اخروٹی دماغ کی گری میں کچھ تبدیلیاں واقع ہوں گی 😀

راشد کامران

August 14th, 2009 at 12:35 pm    


جعفر صاحب۔۔ بولیں‌کہ لب آزاد ہیں آپ کے (:

ڈفر صاحب۔۔ لاس ویگاس کا چکر لگوادیا تو جمہوریت کی تعریف میں‌ مزید اضافے نہ ہوجائیں کہیں۔

عبداللہ

August 15th, 2009 at 3:00 am    


ہا ہا ہا،بس کچھ ایسی ہی شرابی شرابی کبابی کبابی سی ہماری بھی جمہوریت ہے جہاں کہنے والے کو کہنے کی آزادی ہے اور سننے والوں کو نہ سننے اور نہ سمجھنے کی بھی ؛)

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website