شہر کراچی ہے جس کا نام
نیشنل پبلک ریڈیو آزادنہ خبروں کے حوالے سے ایک معتبر نام جانا جاتا ہے اور مجھے ذاتی طور پر اسکی خبروں اور تبصروں کا انداز بہت پسند ہے ۔ پچھلے دنوں اربن فرنٹیر کے نام سے ایک سیریز میں کراچی کے حوالے سے نہایت معلوماتی سیریل این پی آر پر نشر کی گئی۔ اربن فرنٹیر میں کراچی شہر کو سر فہرست رکھا گیا اور میزبان نے کراچی کو سر فہرست رکھنے کے حوالے سے اپنا دلچسپ خیال بھی پیش کیا۔
آپ یہ سیریل این پی آر پر یہاں سے سن سکتے ہیں ۔ یہ ایک طویل سیریل ہے اور اس میں بیان کردہ کچھ دلچسپ باتیں یا یوں کہہ لیں کے بیرونی دنیا کے لیے کراچی کی شکل، کراچی کے باشندوں نے کچھ اسطرح بیان کی۔
فیصل ایدھی نے 12 مئی کے واقعات بیان کیے جب انہیں ایمبولینس ڈرائیور کے ساتھ روکا گیا اور روکنے والوں کا اسرار تھا کے وہ ایمبولینس ڈرائیور کو ہلاک کریں گے کیونکہ فیصل ایدھی کے مطابق اسکے خدوخال دہشت گردوں کے نزدیک ناپسندیدہ تھے۔
کراچی کے ناظم اعلی مصطفی کمال نے ایک نیا نظریہ پیش کیا اور انکے مطابق پشتون لوگ کراچی کے اسٹریٹیجک مقامات پر اپنی آبادیاں قائم کررہے ہیں تاکہ کراچی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ ریڈیو کا صحافی انکی اس نئی تھیوری سے کوئی خاص متفق دکھائی نہیں دیا۔
اس میں الطاف بھائی بھی ہیں ۔۔ اور اپنی انگریزی تقریر میں الطاف بھائی نے فوج کی ایسی تیسی کی اور اسکے بعد جب صحافی نے ان سے فوجی حکومت میں شمولیت کی بابت سوال کیا تو الطاف بھائی نے کہا “آپ کا کیا مطلب ہے“ غالبا برطانوی اور امریکی انگریزی کے فرق کی وجہ سے سوال درست طرح سمجھ نہیں سکے۔
جنونی سلمان احمد بھی اپنی دکھ بھری داستان کے ساتھ ہیں۔ فاطمہ بھٹو، ارد شیر کاؤس جی اور کئی اپنے مخصوص انداز میں کراچی کی داستان سناتے نظر آئیں گے۔ یہ ایک اچھی اور غیر جانبدار قسم کی ریسرچ ہے اور بڑے اچھے انداز میں پیش کی گئی ہے۔
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (5)
عدنان مسعود
June 10th, 2008 at 11:14 pm
بہت خوب۔ تمام حصے بہت اچھے لگے۔ لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آی کہ ہماری اپنی صحافت کے معیار کو کیا ہوا ہے کہ ہم ایسی کوی چیز نہیں بنا پا رہے۔ پاکستانی آخبارات کی رپورٹنگ کا معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے اور جیسا کہ وسعت اللہ خان لکھتے ہیں، ‘بریکنگ نیوز‘ میں اب کسی فرد کی پنڈال میں آمد کا زکر ہوتا ہے۔
مسایل ہمارے ہیں اورقلم و پیشکش کسی اور کی، غیر جانبدار رپورٹنگ ہوگی تو ظاہر سی بات ہے اچھی لگے گی، کم از کم اکثریت کو تو سچ پسند آے گا۔ وہ سچ جو ہماری سڑکوں پر بہ رہا ہے اور ہمارے درمیاں چل رہا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کے سات سمندر پار کے صحافی کو تو وہ سچ دو ہفتوں میں نظر آجاتا ہے اور ہمارے آخبارات، اور ارباب اقتدار لوگوں کی آنکھیًں بند ہیں۔ یہ کونسا خوف ہے جو ہمارا گلا دبا رہا ہے اور عوام بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جا رہے ہیں؟
راشد کامران
June 11th, 2008 at 3:46 pm
ہمارا میڈیا ابھی پاؤں پاؤں چلنا شروع ہوا ہے پھر اصل صحافت کے بجائے پروفیشنل قسم کے مبصر وقوعہ سے میلوں دور بیٹھ کر اس بارے میں رائے زنی کرتے ہیں جس کی وجہ سے بات کی قدر اور معیار تھوڑا گرا گرا سا ہوتا ہے۔۔ خصوصا اخبارات کی رپورٹنگ تو بہت غیر معیاری ہوگئی ہے۔
بدتمیز
June 11th, 2008 at 5:16 pm
میں منظر نامہ پر اگلی بحث اسی ضمن میںکرانا چاہ رہا تھا کہ پاکستانی میڈیا “ڈبے سے باہر“ کیوں نہیں سوچ سکتا اور نقالی پر کیوں مجبور ہے۔ وہ کون کون سی تجاویز ہیں جو کارپوریٹ میڈیا کے ذہنوں میں نہیں لیکن اس بحث سے پیش ہو سکتی ہیں لیکن اسی وقت دیکھا تو تعلیم پر پوسٹ ہو چکی تھی لہذا نہیںکہا۔
راشد کامران
June 11th, 2008 at 5:28 pm
چلیں اسکو منظر نامہ کی مستقبل کی بحث میں شامل کردیں ۔۔ امید ہے اچھی پوسٹس پڑھنے کو ملیں گی۔
ریفارمر
June 12th, 2008 at 9:47 pm
مندرجہ زیل تصویر میں اداروں کی خرابی کی وجہ دکھای دیتی ہے۔
http://reform101.blogspot.com/2008/06/fat-military-bastards-vs-miserable.html
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں