خلیفہ
میاں تمہارے باپ سے بات کرنی پڑے گی۔
ارے ان لونڈوں کو کوئی اور کام ہے کے نہیں۔۔
ارے یہ تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔۔ ابھی دیکھو دو گھنٹے میں کیسے بجلی نہیں آتی۔۔
کراچی کے گلی محلوں میں اپنا لڑکپن گزارنے والا کون آدمی خلیفہ سے واقف نہیں ہوگا۔۔ آپ انہیں گلی کا ماموں ، چچا یا بھائی بھی کہہ سکتے ہیں۔۔ نام میں کیا رکھا ہے۔۔ کام انکا ایک ہی ہوا کرتا ہے خلیفہ گیری۔ ہر گلی میں خلیفہ کا ہونا جیسے کراچی کی ثقافت کا لازمی جز ہے ۔۔ خلیفہ کو آپ یوں سمجھ لیں کے جس طرح ہر محلے میں ایک بی بی “غیبت نیٹ ورک ایڈمن “ کی حیثیت نبھاتی ہے خلیفہ بس اس عورت کا مردانہ روپ ہے۔ محلے کا کوئی مسئلہ ہو، کسی لڑکے کی شرارت کے چرچے ہوں یا کھلتے شباب کی اٹکھیلیاں، خلیفہ کا ٹانگ اڑانا جیسے واجب۔
لڑکے بالوں پر تو خلیفہ کی نظریں ایسے گڑی رہتی تھیں جیسے امریکی انٹیلیجنس والوں کی اسلامی شدت پسندوں پر۔۔ لڑکے بھی تو خلیفہ کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے کہاں جانے دیتے تھے۔۔
ماموں پھر گورنر سے نوکری کی بات کررہے ہونا میری؟
ماموں پھر جنگ میں تو بھارتی فوجی آپ کو دیکھ کر ڈر گئے ہونگے؟
ماموں ۔۔ ممانی بلا رہی ہیں ۔۔
خلیفہ کو پھلجڑی لگانے کے لیے اتنا کافی تھا۔۔ پھر ایک ایک کا شجرہ نسب خلیفہ کی زبانی۔۔
نہ جانے گلیوں میں اب وہ رونق کیوں نہ رہی۔۔ نہ خلیفہ نا لڑکے۔۔ اب تو بس دشمنیاں رہ گئی ہیں۔۔ کہاں وہ وقت کے محلے کا ہر گھر آپ کو گھر ہوا کرتا تھا۔۔ کہاں یہ وقت کے محبتیں اٹھ گئیں۔۔ وہ کیا کہا تھا کسی شاعر نے
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو ۔۔ بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون ۔۔ وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (8)
تزک نگار
July 10th, 2008 at 10:47 pm
ہم نے تو اس طرح کی باتیں کتابوں میں ہی پڑھی ہیں
یا بچپن میں کچھ ایسے بندے دیکھے ہیں
اب تو یہ سب خواب ہو گیا ہے
راہبر
July 11th, 2008 at 6:31 am
میں تحریر پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کراچی کے کس علاقے میں اب ایسا کچھ نظر آتا ہوگا۔۔۔ آخر میں پتا چلا کہ آپ بھی ماضی کی یادوں کا ذکر لیے بیٹھے تھے۔۔۔ یہ باتیں اب خواب ہوئیں 😥
میرا پاکستان
July 11th, 2008 at 7:51 am
خلیفہ کے لفظ کی عظمت ختم کرنے کیلیے ہمارے زمانے میں حجاموں، موچیوں اور آوارہ گرد لوگوں کو خلیفہ کہ کر پکارا جانے لگا اور پھر بعد میں خلیفہ اسلامی بادشاہ کی بجائے ایسے شخص کو کہا جانے لگا جس کا کام صرف اور صرف باتیںکرنا ہوتا تھا۔
آپ کی بات واقعی درست ہے کہ بڑے شہروں میںاب مغربی انداز آجانے کی وجہ سے پرانے مشرقی انداز ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن اس طرح کے خوابوں کی تعبیر ابھی بھی پاکستان کے چھوٹے قصبوںاور دیہاتوںمیںدیکھی جاسکتی ہے۔
بھای
July 17th, 2008 at 1:10 pm
راشد بھای،
مین نے بھی کراچی مین زندگی گزاری ھے اور پہلے ھم بھی زددی لوگون کو انھی القاب سے بلاتے تھے۔ مگر اب احساس ھوتا ھے کہ روز مرہ کی زبان مین ھم کتنی التی باتین کہ جاتے ھین۔
مسال کے تور پر، بنگالی
آپ سے بھی گزارش ھے کھ ایسی چیزون سے گریز کرین جس سے کسی کی دل آزاری ھو۔
راشد کامران
July 17th, 2008 at 1:33 pm
تزک نگار صاحب ۔۔ کراچی کی تیز رفتار ترقی کئی چیزوں کو نگل گئی ہے ۔۔ اس میں ایک محلہ داری اور اس سے وابستہ کئی چیزیں شامل ہیں۔۔
راہبر ۔۔ شاید کچھ پرانے محلوں جیسے ملیر، لیاقت آباد یا گلبہار وغیرہ میں اب بھی آپ کو یہ چیزیں مل جائیں ۔۔ یہ ماضی قریب کی باتیں ہیں ۔۔ ماضی بعید نہیں۔۔
افضل صاحب ۔۔ آپ کی بات درست ہے ۔۔ لیکن میرا نہیں خیال خلیفہ کی عظمت ہمارے زمانے میں ختم کی گئی۔۔ کئی صدیوں پہلے جب خلافت میں ملوکیت در آئی تو خلیفہ کی عظمت ویسے ہی ختم ہوگئی تھی۔۔ چناچہ ضدی اور ہر بات میں ٹانگ اڑانے والے کے لیے خلیفہ یا اور فعل کے لیے “خلیفہ گیری“ کا اصطلاحات عام ہوگئیں۔
بھائی صاحب۔۔ یہاںتو کسی کی تضحیک مقصود ہی نہیں۔۔ یہ وہ عام بول چال کے الفاظ ہیں جو کئی عشروں سے کراچی کی اردو میں مستعمل رہے ہیں ۔۔ کسی بنگالی کو بنگالی کہنے سے تضحیک کا کیا پہلو نکلتا ہے ؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی مجھے پاکستانی کہے تو میں تضحیک محسوس کروں۔۔ یا امریکی کو امریکی کہنے پر وہ شرمندہ محسوس ہو؟
رضوان
August 17th, 2008 at 6:15 pm
راشد صاحب اب لیاقت آباد (لالوکھیت) اور کورنگی جیسے علاقوں میں بھی اور تو کسی کی خلیفہ گیری نہیں چلتی بس پیر صاحب کے مرید ہی سب سے بڑے خلیفے ہیں۔
پاس پڑوس میں بھی بات کرتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے کہ “ کل کا لمبڈا دو منٹ میں سب کے سامنے کرکری نہ کر دے“
ڈفر
August 20th, 2008 at 3:43 am
ماموں زیادہ صحیح رہے گا
راشد کامران
August 20th, 2008 at 3:43 pm
ماموں بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔ لیکن ماموں ذرا دبے دبے سے ہوئے کرتے ہیں اور ویسے بھی منا بھائی والی فلم کے بعد شاید ماموں کا رواج زیادہ زور پکڑ گیا ہے۔
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں