(شفقت حجام (قسط اول
شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے، روشنی کی ایک ایک کرن یوں دم توڑتی جا رہی تھی جیسے بے بس انسان کی گل ہوتی امیدیں۔ پہاڑی علاقوں میں یہ وقت بڑا خطرناک ہوتا ہے ، مجھےگاؤں پہچنے کی جلدی تھی، خطرناکی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں تیز تیز قدم اٹھاتا منزل کی طرف بڑھا چلا جارہا تھا۔ میں اُس علاقے کا رہائشی نہیں تھا لیکن ایک ایک پہاڑی اترائی اور چڑھائی سے واقفیت کی بنا پر مجھے راستہ تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہورہی تھی ۔ مجھے یاد ہے اُس پَل میں گاؤں اپنے سامنے دیکھ سکتاتھا، اونچائی سے گاؤں کا منظر اتنا حسین تھا کہ میرے قدم بے اختیار ایک مقام پر جم سے گئے، میں اُس ایک لمحے میں پیدا ہونے والی خوبصورتی کو ابھی پوری طرح جذب بھی نہ کرپایا تھا کہ فضا اچانک گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھی۔ پہاڑی لوگ موسم کے مزاج کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، بادلوں سے آنے والی گڑگڑاہٹ کا بادلوں سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا، وہ تو موت کی گڑگڑاہٹ تھی، مجھے صورت حال سمجھنے کے لیے ایک ساعت بہت تھی ، میں دیوانہ وار گاؤں کی طرف بھاگا لیکن موت کے فرشتے کے پاس میرے نام کا پروانہ نہیں تھا، دور میری آنکھوں کے سامنے گاؤں پر بلائیں نازل ہورہی تھیں، آگ کی بارش وہ آخری چیز تھی جو میں دیکھ سکا، پھر ہر طرف خون میں رچی باردو کی بو پھیل گئی۔
شفقت حجام ہاتھ میں استرا پکڑے اجنبی گاہک کو منہ کھولے یوں گھور رہا تھا جیسے آگ کی بارش کے بعد بھی کہانی میں کچھ باقی بچا تھا۔ کیوں بھئی، خط مکمل کرو گے یا یونہی کھوئے رہو گئے ؟ ایک ہاتھ داڑھی پر پھیرتے ہوئے اُس نے دوسرا ہاتھ شفقت کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ شفقت جیسے پہاڑی جھرنے کی طرح خیالوں کے آسمان میں اڑتا ہوا حقیقت کی زمین پر آگرا۔۔ ہاں ہاں کیوں نہیں! اور پھر وہ اسکی داڑھی کا خط اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے مکمل کرنے لگا۔
یہ ایک درمیانے درجے کی رہائشی آبادی میں بنی ہوئی ایک چھوٹی سی مارکیٹ کا نسبتا غیر گنجان علاقہ ہے، جہاں شفقت حجام کی دوکان “عظمت ہیر سیلون“ اپنے جیسی کئی دوسرے چھوٹی چھوٹی دوکانوں سے ساتھ واقع ہے۔ عظمت اُس کے بڑے بیٹے کا نام بھی ہے اور قریبا اسی جیسے ناموں کے سالوں پرانے بورڈز دوسری دکانوں پر بھی آوایزاں ہیں ۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہ آئی کہ ان ناموں کے پیچھے اولاد کی بے پناہ محبت ہے یا اس بات کا کامل یقین کہ اس نام کے مالک نے کل اس دوکان کا مالک ہی تو بننا ہے۔
حجام کی دوکان بھی ایک عجیب ہی دنیا ہے، جہاں ہر کوئی سر جھکائے اپنی بپتا حجام کو سونپنا چاہتا ہے، حجام بیچارہ گاہک کی خوشی کی خاطر ہر طرح سے ہاں ہاں، ہوں ہوںکر کہ یوں باور کراتا ہے جیسے اُس نے سب کے رستے زخموں کو صاف کرکے پھایا لگانے کا “ایکسکلوزو“ ٹھیکا لے رکھا ہے۔ معمول کے اس دن بھی وہ اجنبی اپنی بپتا سنا کر چلتا بنا، لیکن نہ معلوم کیوں شفقت حجام کے لیے ہر آفٹر شیو اور شیمپو کی بوتل خون میں رچی بارود کی بو سے بھر گیا۔
– (جاری ہے)-
نوٹ: اگر آپ سمجھتے ہیں کے اس کہانی کا دوسرا حصہ آپ کے پاس ہے توشفقت حجام کا دکھ تمام لوگوں تک پہنچایے۔ کہانی کے تسلسل کے لیے جز نمبر لگانا نہ بھولیے۔
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (10)
افتضار اجمل بھوپال
July 29th, 2008 at 7:17 am
اچھی کہانی ہے
ماوراء
August 2nd, 2008 at 4:25 pm
آپ کا مطلب ہے کہ اس کہانی کو کسی اور نے آگے بڑھانا ہے؟؟
راشد کامران
August 3rd, 2008 at 12:11 am
ماوراء بالکل یہی سوچ تھی کے اوپن سورس کی طرز پرکہانی کو آگے بڑھایا جائے۔۔ فضول سوچ ہے لیکن کبھی کبھی عجیب سے خیالات پر بھی کام کرنے کا دل چاہتا ہے ۔
ماوراء
August 4th, 2008 at 6:38 pm
نہیں فضول تو نہیں۔۔۔اچھا خیال ہے۔
اور آپ نے اتنے اچھے انداز میں لکھی ہے کہ میں نے آگے بڑھائی تو کہانی کا ستیاناس ہو جائے گا۔ اس لیے اگر کوئی اور بڑھائے تو زیادہ مزہ آئے گا۔
راشد کامران
August 5th, 2008 at 1:30 pm
نہیں میرا نہیں خیال کوئی بھی “ستیاناس“ کرے گا۔۔ آپ آگے بڑھائیں ۔۔ اردو میں شاید یہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں تو انوکھا کام ضرور ہوگا۔
ڈفر
August 20th, 2008 at 3:42 am
اندازِ تحریر تو بڑا فِٹ ہے
کیا خیال ہے “بلاگ ڈائجسٹ“ نا نکال لیا جائے؟
پر کہانی آگے بڑھے گی کیسے؟ مرکزی خیال تو مکمل ہوا معلوم پڑتا ہے
ہاں سٹار پلس کے ڈرامہ ٹائپ کہانی کا آئیڈیا ہے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا
راشد کامران
August 20th, 2008 at 3:39 pm
شکریہ جناب ۔۔
کہانی کا کیا ہے۔۔ غریب کی زندگی کی طرح آگے بڑھے گی۔۔ سٹار پلس کہانی سے تو بہتر ہے آدمی چپ سادھ لے۔
شکاری
September 19th, 2008 at 10:30 am
کامران بھائی بہت اچھا لکھا ہے کہانی کا یہ انتدائی حصہ بہت متاثر کن تھا اور اس کو اسطرح آگے بڑھانے کا آئیڈیا بھی اچھا ہے۔
راشد کامران
September 19th, 2008 at 11:10 am
شکریہ شکاری صاحب۔۔ ہاں بس ایک سوچ تھی کہ کسطرح مختلف لوگ ایک طویل کہانی تخلیق کرسکتے ہیں، فی الحال تو حصہ اول ہی ہے اور دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
نگہت شاہین
June 14th, 2009 at 10:56 pm
راشد صاحب کمال کاآئیڈیا ہے ،کہانی کا کردار ایک دکان میں بیٹھا ہے اور اس جگہ سے ہر روز ایک نئے کردار کی نئی کہانی جنم لے سکتی ہے بالکل قصہ چہار درویش کی طرح ۔ آج ہم جیسے متوسط پاکستانی اس حجام کے درد اور بارود کی بو سے بہت اچھی طرح واقف ہیں ۔
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں