کی ورڈ: الطاف حسین؛ قادیانی؛

اگر آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں‌تو دراصل آپ بھی میری اُس کمینی حرکت کے جھانسے میں آچکے ہیں‌ جس کے لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ “کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے”۔ تو پہلے ہی قدم پر حلفیہ بیان دینا چاہتا ہوں کہ اس پوسٹ کا قطعا کوئی تعلق الطاف حسین سے نہیں‌ اور نہ ہی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے بارے میں اس پوسٹ میں کوئی بات کرنے کا ارادہ ہے بلکہ الطاف حسین کے قادیانیوں کے بارے میں دیے گئے بیان تک پر یہاں‌ کسی قسم کا کوئی مدعا نہیں اٹھایا جارہا چناچہ اگر آپ نے الفاظ کی تلواروں‌ پر دھار لگا لی تھی تو انہیں وسیع القلبی کی نیام میں واپس دھکیل دیں۔ یہ تو محض‌ سرچ انجن کو دھوکا دینے کا ایک بہانہ ہے اب دیکھیے کیسے کوئی الطاف حسین اور قادیانیوں‌ جیسا مشہور زمانہ “کی ورڈ” تلاشتا ہے اور اسے اس پوسٹ کا رستہ نہیں دکھایا جاتا بلکہ بعضے تو بھٹک کر بھی منزل پر ہی پہنچیں گے۔

دراصل قادیانیت، ایم کیو ایم اور الطاف حسین ہمارے مسائل کے حل کے لیے اتنی اہمیت اختیار کرچکے ہیں کہ جب تک قادیانیت، الطاف حسین، ایم کیو ایم  کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا اس وقت تک غربت، جہالت، لاقانونیت اور باقی جتنے روگ بھی اس قوم کو لاحق ہیں ان کا علاج ممکن نہیں۔ غربت کا رونا کیا رونا کہ ایک نعمت ہے نا چوری کا ڈر نا ڈاکے کا خطرہ۔ نا حساب کی فکر نا کتاب کا ٹنٹا۔ اور جہالت تو اس قوم کی امتیازی صفت ہے اس کو جتنی دیر سے ختم کیا جائے اتنا مناسب ہے کیونکہ اگر جہالت کا خاتمہ ہوگیا تو باقی  تمام مسائل حل کرنے کے لیے جو اتنی بڑی فوج ظفر موج تعینات ہے اس کا کیا بنے گا۔ اور اگر  اس سے پہلے دو سے پانچ فیصد اقلیت کو فوری طور پر واصل جہنم نا کیا گیا تو پچانوے فیصد اکثریت کا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ ویسے بھی ہمارا ایمان تو ایک ٹمٹماتے دیے  کی مانند ہے جو کسی بھی سلمان رشدی کی ہلکی سی پھونک کا بوجھ بھی نہیں‌ سہار سکتا۔

تو جب تک میڈیا، سیاستدان اور عام عوام کوے کے حلال ہونے اور بھینس کے دودھ کے مکروہ تحریمی ہونے کے متعلق بحث میں غرق ہے  آپ غربت کی عادت ڈالیے ، جہالت کا فائدہ اٹھائیے۔ آٹے کی لائنیں لگائیے بلکہ آٹے کی راہ میں جام شہادت نوش کیجیے اور اگر ایک آدھا بچہ بیچنا پڑ جائے تو گردہ فروخت کرنے سے کہیں بہتر ہے اور تنہا خودکشی کرنے والا تو انتہائی بزدل انسان ہے۔ کسی پل سے دریا میں کودتے ہوئے دو بچوں‌ اور ایک بیوی کا ہاتھ پکڑنا ایسا کوئی  مشکل کام ہے کیا؟۔

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (17)

یاسر عمران مرزا

September 14th, 2009 at 5:30 pm    


یہی پانچ فیصد طبقہ جب آپ کے ملک میں ایک نئی ریاست بنائے گا نہ تو لگ پتا جائے گا ۔ برائی کا جتنی جلدی سد باب کر دیا جائے اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
اگر جسم میں پھیلنے والے ناسور کو بڑھنے دیا جائےتو ایک دن پورا جسم بے کار ہو جاتا ہے،
ایک اور بات، غربت کا مسائل ، تعلیم کے مسائل، نہ تو آپ ختم کرسکتے ہیں نہ ہم، اور یقین کیجیے، دنیا میں کسی مسئلے کا حل بحث ومباحثہ نہیں نکال سکتا
حل ہوتا ہے عملی اقدامات سے

قادیانیوں کو قتل کرنا میری جذباتیت پر مبنی ایک خیال ہے، لیکن میں اس پر عمل تو نہیں کر رہا، سچ میں نے ابھی تک ایک بھی نہیں مارا ، اس بات کا تفصیلی جواب میں اپنے بلاگ کی تازہ تحریر میں دے چکا ہوں

Kabir

September 14th, 2009 at 6:39 pm    


سارا مسئلہ کاپی رائيٹ کا ہے- کاپی رائيٹ کی خلاف ورزی کيسے برداشت کرے کوئي-

غربت اور جہالت کا معاملہ بعد ميں آئے گا-

😉

Islam Inc. Copyright © 2009

Copyright gives the author of an original work exclusive right for a certain time period in relation to that work, including its publication, distribution and adaptation, after which time the work is said to enter the public domain.

Readers must be surprised to see the implementation of copyright concept in the religion of truth revealed by Allah that actually has no connection with materialism but it’s a fact, in Pakistan Islam has been perceived as a corporation that exist as a product of corporate law (Pakistan’s Constitution), and its rules balance the interests of the management (Religious Fanatics) who solely operate the Islamic corporation in Pakistan. Creditors(Islamic sects) who loan its goods, services; shareholders (Madarsa Owners) that invest their capital (Madarsah Education) and the employees (Jihadi Brigade) who contribute their labor to achieve and safeguard vested interests of Islam Inc.

http://pakistandesk.com/?p=2651

نعمان

September 14th, 2009 at 8:33 pm    


زبردست، کیا برجستہ اور شائستہ طنز ہے بہت عمدہ۔

کبیر آپ کی پوسٹ پڑھی اور یو ٹیوب پر ویڈیو بھی دیکھی۔ مذہب چاہے کوئی سا بھی ہو اس پر آرگنائزڈ مافیا کی طرز پر قبضہ ہمیشہ اقتدار اور طاقت کے لئے ضروری سمجھا گیا ہے۔ اسلام میں چونکہ پاپائیت کی کوئی گنجائش ہی نہیں تو ہم اپنے زمانے کے کونسٹنٹائن کی مدد سے قوانین بناتے ہیں اور راج کرتے ہیں۔

عمران ان پانچ فیصد قادیانیوں یا ایم کیو ایم والوں کو چھوڑیں۔ ذرا بلوچستان کی طرف دیکھیں وہاں آپ کے مسلمان بھائی علیحدہ وطن کا مطالبہ کر بیٹھے ہیں۔

عنیقہ ناز

September 14th, 2009 at 9:02 pm    


کبیر صاحب کی بات دلچسپ ہے۔ آپ نے صحیح کہا کہ جب تک ایمان کے خطرات کو دور نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک کچھ اور سوچنا بھی گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔ پچھلے کئ سو سالوں سے مسلمان مل کر اس خطرے سے نمٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ لیکن خطرہ ہے کہ بس بڑھے ہی جارہا ہے۔ حالانکہ مولانا محمد علی جوہر تو فرما گئے ہیں کہ اسلام کی فظرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے۔ لیکن بادی النظر میں تو یہ خطرہ ہے جس کی فظرت میں لچک نظر آتی ہے۔
اب آٹا اور چینی اور جہالت اور غربت اورصحت عامہ ان سب کی فکر میں پڑ گئے تو فکر اسلام کون کریگا؟ در حقیقت مجھے تو ان سب چیزوں میں بھی ایک سازش کی بو آرہی ہے جو پاکستان کے روشن خیال لوگوں نے آٹا، چینی والوں سے مل کر بنائ ہے۔ یقینی طور پر اس میں اقلیتوں کا بھی حصہ ہوگا۔ کیونکہ جناب لکڑی کا کلہاڑا اس وقت تک جنگل سے لکڑی نہیں کاٹ سکتا ۔ جب تک اسکے ساتھ لکڑی کا دستہ نہ ہو۔ تو ایسے لادین عناصر نے ان چیزوں کے بحران کا رونا ڈالا ہوا ہے۔ یہ سب سابقہ حکومت کی پیداوار ہے۔ اس لئے ہم چیخ رہے ہیں کہ ٹرائل کرو، یہی پاکستانی قوم کی آواز ہے ۔
اب مجھے تو لگ رہا ہے کہ اس غدار طبقے سے آپ کا تو کچھ تعلق نہیں۔ یہ آپ نے کوے کے حلال ہونے کی بات کیوں چھیڑی، جبکہ ایک عام مسلمان کو بھی پتہ ہے کہ کوا حرام ہوتا ہے۔ پھر آپ اس قسم کے شکوک و شبہات کیوں پیدا کر رہے ہیں۔
خدا آپ جیسے لوگوں کو راہ راست پہ لائے۔
خدا مجھ جیسے لوگوں کو بھی راہ راست پہ لائے
اور خدا ان جیسے لوگوں کو بھی راہ راست پہ لائے۔
تاکہ ہم سیدھے اس خوشہ ء گندم کی طرف جائیں، جس کی وجہ سے جنت سے نکالا ملا۔

میرا پاکستان

September 14th, 2009 at 10:08 pm    


تبھی تو ہم نے اپنے بلاگ پر طنزیہ لکھا تھا کہ امریکہ کے ملک کر مسلط ہونے کا مسئلہ شاید اتنا اہم نہیں تھا کیونکہ اس پر صرف تبصرے ہوئے تھے۔ الطاف حسین اور قادیانی کا مسئلہ زیادہ اہم تھا اسلیے اس پوسٹ پر اب تک پچاس سے زیادہ تبصرے ہو چکے ہیں۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم اصل مسائل سے آنکھیں چرائے بیٹھے ہیں اور غیرضروری مسائل میں جانیں‌گنوا رہے ہیں۔

نبیل

September 15th, 2009 at 1:16 am    


راشد، آپ کا بھی حوصلہ ہے کہ آپ کس کس قسم کے تبصروں کو برداشت کر لیتے ہیں۔ موضوع کیا ہوتا ہے اور لوگ کیا بھانت بھانت کی بولیاں بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ویسے میں بھی سوچ رہا ہوں کہ اپنے بلاگ کی ٹریفک بڑھانے کے لیے قوم اور ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات پر مراسلات شائع کرنا شروع کر دوں اور بعد میں فخریہ بلاگ کی ٹریفک کے اعدادوشمار پریزینٹ کروں۔

عبداللہ

September 15th, 2009 at 3:52 am    


راشدمیں آپکا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپنے وہ سب کہ ڈالا ہے جو میرے دل میں تھا،اور نیٹ کی خرابی اور کچھ مصروفیات کی وجہ سے لکھ نہیں پارہا تھا اللہ آپکے قلم کو سدا حق کے لیئے چلتا رکھے تاکہ آپ اسی طرح لوگوں کو آئینہ دکھاتے رہیں،آمین

فیصل

September 15th, 2009 at 4:28 am    


ہا ہا ہا
آپ بڑے وہ ہیں
یار کوئی دو چار ہاٹ کیک مجھے بھی بتاؤ ٹریفک بنے اپنے بھی ہاں
ہی ہی ہی

راشد کامران

September 15th, 2009 at 10:23 pm    


یاسر بھائی دو باتیں۔۔ اگر واقعی ریاست میں ریاست بنانے کے عمل کو آپ غلط سمجھتے ہیں اور پاکستان کی سالمیت کے قائل ہیں‌تو قادیانیوں‌سے پہلے بلوچستان کی محرومی دور کرنے کی بات کریں جیسا کے نعمان نے بھی اپنے تبصرے میں لکھا اور اس سے بھی پہلے شدت پسند مذہبی ٹولے سے نمنٹنے کی فکر کریں جو اس سلسے میں اپنی سی پوری کوشش کرچکا ہے اور ابھی تک ریاست پاکستان کی سالمیت پر خطرہ ہے۔ جہاں تک آپ کا کہنا ہے کہ بحث مباحثہ مسائل کا حل نہیں‌ تو میں بصد احترام اختلاف کروں‌گا کہ بحث مباحثہ ہی مسائل کا حل ہے اور ہر انسان اپنی بساط بھر کوشش کرے تو غربت اور جہالت کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے بلکہ ہوگا۔

کبیر صاحب خوش آمدید۔۔ مجھے افسوس ہے آپ بحث اسی سمت لے جارہے ہیں جہاں سے بچانا ہے۔

نعمان صاحب شکریہ۔

عنیقہ صاحبہ۔۔ آمین (:

افضل صاحب۔۔ آپ نے درست لکھا تھا کہ جو مسئلہ ہے اس پر بات نہیں اور جو اتنا بڑا مسئلہ نہیں‌ اس پر لوگوں کا جوش و خروش قابل دید ہے۔

نبیل صاحب۔۔ یہ تو بلاگ سے ساتھ ہمیشہ سے جڑا ہے اب کیا ہوسکتا ہے کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ با مقصد گفتگو ہو لیکن نظریات کی کھینچا تانی میں رنگ سے باہر ہی ساری لڑائی ہوتی ہے جس کا کوئی فاتح نہیں۔

عبداللہ صاحب شکریہ۔

فیصل صاحب۔۔ اردو بلاگ کے تو تین چار ہی جادوئی کی ورڈز ہیں۔۔ دو تو استعمال ہوگئےباقی آپ خود سمجھدار ہیں (:

یاسر عمران مرزا

September 16th, 2009 at 5:45 am    


نعمان صاحب
بلوچی آپ کے بھی بھائی ہیں، ان کی محرومیوں کے سبب وہ علیحدگی کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں،
راشد صاحب
چلیے بات کرتے ہیں، بلوچی عوام کو پہلے ہی میڈیا کوریج نہیں دی جا رہی، تو شروعات ہم کر دیتے ہیں
بلوچوں کے معاملے میں، علیحدگی کی مطالبے کو میں غلط نہیں سمجھتا، بلکہ نقصان دہ سمجھتا ہوں، دونوں فریقین کے لیے۔
اس کی بجائے اس مطالبے کے پیچھے چھپی ہوئی محرومیوں کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

راشد کامران

September 16th, 2009 at 12:06 pm    


یاسر بالکل متفق ہوں بلکہ اردو بلاگرز نے بلوچستان کے مسئلے پر بہت ہی کم کم لکھا ہے اور ہم سب کو اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے میں کوشش کروں گا کہ عید کے فورا بعد اس سلسلے پر پوسٹ لکھوں اور ساتھ ساتھ تمام دوسرے بلاگرز سے بھی گزارش ہوگی کہ درست، مصدقہ اور متعلقہ معلومات کا تبادلہ کریں تاکہ خدانخواستہ بنگلہ دیش جیسی صورت حال پھر پیدا نہ ہوجائے

عامر کامران

September 16th, 2009 at 9:16 pm    


میرے خیال میں کسی بھی ناسور سے بچنے کا طریقہ اگر یہی ہے کہ جسم کے اس حصہ کو کاٹ کر علیحدہ کر دیا جائے تو یقینآ ہم ایک ایک کر کے پورا جسم ہی کاٹ ڈالیں گے۔ کوشش تو آخری درجہ تک جسم کو بچانے کی ہی ہونی چاہئے ۔ قادیانیت کے مسئلے پر بھی جو رویہ پاکستان کے مسلمانوں نے اختیار کیا اس نے نہ صرف یہ کہ اس کو مذید پہلانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ قادیانیت کی نئٰ نسل کو اپنے عقائد پر محکم کر دیا۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ ایک ایسا مسلمان جس کو اسلام کی دلالی کرنے والوں نے پہلے ہی اسلام سے دور کر رکھا ہے اگر کوئی شیطان آکر اس کو گمراہ کر دے اور وہ قادیانیت جسی بیماری میں‌مبتلا ہو جائے تو کیا اس کو مار دینا چاہئے ۔ کیا ہمارا یہ فرض نہیں‌بنتا کہ ہم ایسے لوگوں کی اصلاح کرنے کے لئے ان کو بہت احترم کے ساتھ پیار سے بغیر کسی جنون کے جذبات پر مکمل قابو رکھتے ہوئے حق کی تبلیغ کریں ۔ مجھے تو بہت حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں کو شرک کرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ نئی نئی توجیحات بیان کر کے اسے دین کا حصہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ شرک تو کسی درجہ میں بھی ختمِ نبوت کے انکار سے بڑا جرم ہے۔ میرے خیال ہے کہ تمام مسائل کا حل وہی ہے جو اسلام نے ہمیں سکھایا۔ حق کی تلقین اور صبر کی تاکید ۔ اور یہی طریقہ جہالت کو بھی ختم کر سکتا ہے۔ جاہل کو مار دینے سے کہیں بہتر ہے کہ اس کو علم کی اگاہی دے کر اس کی جہالت کو مار دیا جائے اور یہ ہر کوئی کر سکتا ہے اپنی بساط کے مطابق۔

Eid Mubarak

September 21st, 2009 at 3:48 am    


شگفتہ آداب بے حد آداب
پھولوں کی مہک آبشاروں کا ترنم
شباب کا امنگ کلیوں کا تبسم
فضاوں میں رچی خوشبو جیسی
سحر انگیز شگوفوں دل آویز نغموں جیسی
بھر پور گنگناتے خیال میں
خوش کن اداوں جیسی
خوش ادا مچلتی گنگناتی ریشمی لہروں جیسی
حسین یادوں کے جل تھل جیسی
پر کشش عید آئی ہے
اس دھنک رنگ موقع پر میری جانب سے
عید مبارک

شگفتہ

September 21st, 2009 at 6:16 am    


السلام علیکم راشد بھائی، عید مبارک !

راشد کامران

September 22nd, 2009 at 1:45 am    


آپ تمام لوگوں‌بھی عید مبارک۔ اور نیک خواہشات اور دعاؤں کے لیے بہت بہت شکریہ۔

DuFFeR - ڈفر

October 1st, 2009 at 4:44 pm    


ڈیبیٹ ایبل بات پر تو کوئی تبصرہ نہیں لیکن
ریڈر میں ویسے ہی نظر پڑی تو ساری تحریروں کو کی میں چھوڑ کر یہ پڑھنے چلا آیا
کیا زبردست پیرا گراف لکھا ہے (پہلا والا)
اسی لئے تو کہتا ہوں کبھی جونئیرز کو بھی کوئی مفت کا لیکچر شیکچر دے دیں کسی ویب کاسٹ کا انتظام کریں ہم نا ہنجاروں کے لئے بھی

راشد کامران

October 4th, 2009 at 9:21 pm    


ڈفر صاحب۔۔ جناب ہم نے کیا سکھانا ہے ہم تو خود آپ حضرات سے خصوصی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website