اردو کی حتمی کتاب۔
نوٹ۔ یہ مضمون ابن انشاء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی لکھا گیا ہے؛ مماثلت نا ہونے کی صورت میں ادارہ ذمہ دار ہوگا۔
خودکش
دیکھو سامنے خود کش حملہ آور آرہا ہے۔ ابھی چند لمحوں میں پھٹ جائے گا، خود جنت میں جائے گا اور باقی سب کے لیے دنیا جہنم بنادے گا۔ سامنے صحافی کھڑا ہے ابھی کھڑے کھڑے سوال کرے گا۔
کیوں میاں خود کش؛ پہلا حملہ ہے یا تجربہ کار ہو؟
بچے کی دعا
یا اللہ اسلام آباد کو پاکستان کا دارالخلافہ رہنے دے؛ یا اللہ اسلام آباد کو پاکستان کا دارلخلافہ رہنے دے۔
نہیں بیٹا ایسے نہیں کہتے؛ اگر غلط لکھا ہے تو کہو یا اللہ لاہور کو پاکستان کا دارلخلافہ بنادے۔
ابو غلط تھوڑا ہی لکھا ہے۔۔ لکھا تو درست ہی ہے بس حالات ایسے ہیں کہ دعا کرنی پڑ رہی ہے كہ نتیجہ آنے تک جواب درست رہے۔
رشوت کا انجام
یہ راشی ہے؛ اس کا کام رشوت لینا ہے۔ اوپر تک پہنچاتا ہے اس لیے لینے میں سے دینا گھٹا کر حساب صفر رکھتا ہے اور نام کے ساتھ جنتی لگاتا ہے۔ کبھی کبھی تفریق کے قاعدے لاگو نا کرسکے تو آرڈیننس کی ندی میں نہا کر پاپ دھولیتا ہے۔ اب دیکھنا جیل چلا جائے گا، اس کی بیوی رو رو کر مرجائے گی اور یہ صدر بن جائے گا۔ [قومی ترانہ بجتا ہے]۔
سوال۔ ایک لفظ میں بتاؤ کہ جو راشی صدر بن جائے اس کو کیا کہا جاتا ہے؟
مسلمان
یہ آج کی مسلمان قوم ہے؛ ماضی شاندار، حال پتلا اور جغرافیہ بدلتا رہتا ہے۔ آپس میں لڑتے ہیں الزام دوسروں کو دیتے ہیں؛ ہر گروہ دوسرے کو کافر سمجھتا ہے اس لحاظ سے مسلمان کافروں کی تعداد اصل کافروں سے کہیں زیادہ ہے۔ کہیں زیادہ شک ہو تو فوراً شلوار کھینچ کر تسلی کرلیتے ہیں؛ پتلون کھینچنے کا تکلف نہیں کرتے۔ مسلمان سرکار امریکہ پر مرتی ہے لیکن عوام سارا سال لڑتی ہے؛ صفائی نصف ایمان جانتے ہیںاور گلی کوچوں میں پھیلے گند کے لیے بھی یہودی لابی کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ تعلیم کو شیطانی جال سمجھتے ہیں اور جو اہل ایمان ہیں اس جال سے کوسوںدور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کوئی پوچھے میاں تعلیم حاصل کرنا تو فرض ہے؛ بھئی کافر سائنس نہیں مسلمان سائنس فرض ہے۔
سوال۔ کافر سائنس اور مسلمان سائنس میں حاشیہ بنا کر فرق واضح کرو۔
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (28)
arifkarim
November 10th, 2009 at 6:04 pm
بہت خوب، پر یہ سائنس والی بات تو درست ہے!
محمد عمران
November 10th, 2009 at 11:42 pm
زبردست۔۔۔
عبداللہ
November 11th, 2009 at 1:41 am
اگر آج ابن انشاء ذندہ ہوتے تو آپکو فورا اپنی شاگردگی میں لے لیتے!
مکی
November 11th, 2009 at 2:32 am
کافروں والا کیا خوب نکتہ نکالا ہے..
جعفر
November 11th, 2009 at 4:12 am
ایک سوال کا جواب تو مجھے آتا ہے
راشی صدر والے کا
لیکن لکھنے پر چودہ سال اندر
ویسے بھی میںپاکستان میںہی پایا جارہاہوں آج کل
پراٹھے کھانے کی بجائے پانجہ نہ کھانا پڑجائے
ابوشامل
November 11th, 2009 at 5:17 am
بہت شاندار راشد بھائی۔۔۔ “کافر سائنس اور مسلم سائنس” کمال ہے۔ ایسے جاندار طنز سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کسی بڑے طنز نگار کی شاگردی میں رہے ہیں۔
اظہرالحق
November 11th, 2009 at 6:20 am
بہت خوب، مزا آیا ، واقعٰی ہی ہمیں ایسے لکھنے کی بہت ضرورت ہے تاکہ ہم مزاح ہی مزاح میں وہ بات کہ سکیں جو کسی دل میں اتر جائے ۔ ۔ ۔ ۔
اظہرالحق
November 11th, 2009 at 6:51 am
ایک بات یاد آئی ایک زمانے میں میں نے بھی انشاء جی کی کاپی ماری تھی ۔ ۔ ۔ لنک حاضر ہے امید ہے پسند آئے گی
http://azharulhaq72.spaces.live.com/blog/cns!430EB3A9F3E8C6EF!200.entry
یا گوگل پر اردو کی درمیانی کتاب لکھیں اور دیکھیں کہ میں نے کیا گُل کھلائے تھے
نعمان
November 11th, 2009 at 6:52 am
نہیں مجھے یہ پوسٹ پڑھ کر مزہ نہیں آیا۔ لگتا ہے شاید جلدی میں لکھا ہے۔ جملے چست نہیں تھے اور مزاح پھیکا۔ صرف آخری پیرا گراف مسلمان کے طنز اور جملوں میں مزا آیا باقی اوپر سب قدرے عام سا تھا جس کی اب ہم آپ سے توقع نہیں کرتے۔
محمد احمد
November 11th, 2009 at 9:05 am
بہت خوب راشد صاحب!
اچھی تحریر ہے۔
عمر احمد بنگش
November 11th, 2009 at 2:11 pm
بہت خوب جناب۔
مجھے امید ہے کہ یہ تحریر صرف کمپنی کی مشہوری لیے تھی۔ اگلی قسط آیا چاہتی ہے
قدیر احمد
November 11th, 2009 at 10:21 pm
کیوں میاں خود کش؛ پہلا حملہ ہے یا تجربہ کار ہو
اور
۔ کہیں زیادہ شک ہو تو فوراً شلوار کھینچ کر تسلی کرلیتے ہیں؛ پتلون کھینچنے کا تکلف نہیں کرتے
ہاہا بہت خوب۔
ایک لفظ درست کر لیجیے۔ راشی کا مطلب ہوتا ہے رشوت دینے والا، مرتشی رشوت لینے والا ہوتا ہے۔
قدیر احمد
November 11th, 2009 at 10:22 pm
آپ کے بلاگ میںتبصروں کی ڈائریکشن لیفٹ ٹو رائٹ ہے۔
عدنان مسعود
November 12th, 2009 at 9:15 pm
بہت خوب!
لفط راشی کے استعمال پر تنقید کنے والے معزز قاری سے میں متفق نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ جو لفظ اردو میں مستعمل ہے وہ لینے والے اور دینے والے دونوں کے لیے راشی ہی ہے، عربی لغت لغت کےاعتبار سے وہ چاہے مرتشی ٹھرے۔ اس کو ہم غلط العوام بھی نا گردانیں گے۔
راشد کامران
November 13th, 2009 at 12:42 pm
عارف صاحب۔ شکریہ
عمران لالا۔ آپ کا شکریہ۔
عبداللہ صاحب۔۔ کاش کے ابن انشاء زندہ ہوتے تو ہم جیسے تیسرے درجے کے لکھاریوں کو سمجھ آتی کہ لکھا کیسے جاتا ہے۔
جعفر صاحب۔۔ وہ کیا کہتے ہیں کچھ باتیں ان کہی رہنے دو۔۔ تو کچھ سوال ان جواب ہی رہنے چاہئیں۔
ابوشامل صاحب۔۔ شکریہ۔۔ نہیں جی نا پختگی سے آپ اندازہ لگالیں کہ اس معاملے میں کسی استاد کا سایہ سر پر نہیںرہا۔
اظہر صاحب شکریہ۔۔ جناب آپ کا مضمون تو میں بہت عرصے پہلے ہی پڑھ چکا ہوں خوب لکھا ہے۔
نعمان صاحب۔۔ مجھے افسوس ہے کہ میعار برقرار نہیں ر کھ سکا۔۔ شاید ابن انشاءکا انداز اتنا سادہ اور مشکل ہے کہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اسی پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
طرز بیدل میںریختہ کہنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے۔
محمد احمد صاحب۔ شکریہ۔
عمر صاحب۔۔ شکریہ۔۔ فی الحال تو جی ٹریلر سے ہی کام چلائیں۔
قدیر صاحب شکریہ۔۔ آپ نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے۔۔ خیر کچھ لغات میں ڈھونڈنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں اور عدنان صاحب نے بھی اس کی توثیق کی ہے کہ راشی اردو میں رشوت سے متعلقہ دونوں فریقین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرتشی موجود تو ہے لیکن عموما بولا نہیں جاتا۔ جیسے راشی افسران، راشی سیاستدان جیسی اصطلاحات عام ہیں۔
عدنان صاحب۔۔ شکریہ اور راشی کی تصیح کا بھی شکریہ۔
ڈفر - DuFFeR
November 18th, 2009 at 4:38 pm
بچے کی دعا تو ونڈرفُل ہے
😆
راشد اشرف
November 23rd, 2009 at 5:37 am
ابن صفی کے چاہنے والوں سے گزارش ہے کہ وادیی اردو ڈاڈ کام وزٹ کریں جو کہ ایک نئی سائٹ ہے
ابن سعید
December 6th, 2009 at 1:02 pm
جس دن آپ نے یہ تحریر پوسٹ کی ہے تب سے کم و بیش پانچ دفعہ تو اسے ماورائی فیڈر میں پڑھ چکا ہوں آج سوچا رسید کاٹ آؤں ورنہ شکوہ رہے گا کہ چندہ بھی لے لیا اور رسید بھی نہ دی۔ چندے پر خرم صاحب کی تازہ ترین پوسٹ یاد آ گئی۔
راشد کامران
December 8th, 2009 at 12:56 am
ڈفر۔۔ شکریہ۔
ابن سعید صاحب۔۔ جناب نوازش ہے آپ کی۔
شازل
December 13th, 2009 at 12:09 am
باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن لاہور کے دارالخلافہ والی بات سمجھ نہیں ائی
یہ تو ٹھیک ہے کہ لاہور پاکستان کا دل ہے
راشد کامران
December 13th, 2009 at 9:48 pm
شازل صاحب ۔۔ لاہور کہاں ہم بھی تو اسلام آباد کی ہی بات کررہے ہیں۔
معلمہ
December 16th, 2009 at 3:05 pm
آپ کے بلاگ کی نذر
حق گوئی و بے باکی سے گھبراتا ہے مومن
عیاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میںکوتاہی کا ڈر ہے
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
دامن ہے خودی کا جو تھامے ہوئے اب تک
مرمر کے جئے ہے کبھی جی جی کے مرےہے
ہر داڑھی میں تنکا ہے ہر اک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کہ
شمشیروسناں رکھی ہیں طاقوں پہ سجاکہ
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سو گئی طائوس پہ آ کہ
عیاری ومکاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یاروں
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
معلمہ
December 16th, 2009 at 3:27 pm
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تہِ سایہ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہین ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
ابن سعید
December 29th, 2009 at 1:27 am
راشد بھائی اگر آپ فرمائشی تحریریں بھی لکھتے ہوںتو کسی وقت جدید جنتری کے حوالے سے بھی کچھ لکھیئے گا۔ اللہ جانے جنتری پر لکھا گیا طنز و مزاح پطرس صاحب کا ہی تھا یا کسی اور کا۔
عمار ابنِ ضیاء
December 29th, 2009 at 3:01 am
بہت خوب لکھا ہے بلاشبہ۔
اسماء پيرس
December 31st, 2009 at 1:28 pm
آپ کو اور آپکے اہل خانہ کو نيا سال مبارک
راشد کامران
December 31st, 2009 at 4:38 pm
شکریہ اسماء۔۔ آپ کو بھی سال نو مبارک ہو۔
اردو کی حتمی کتاب | روشنی (BETA)
February 6th, 2010 at 6:13 pm
[…] ماخذ – اردو بلاگنگ […]
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں