انڈئی مرغئی
۔۔ پہلا منظر ۔۔
تو آپ کے خیال میں انڈئی بھٹکے ہوئے لوگ ہیں؟
جی بالکل، جب انہیں اس حق بات کا ہی نہیں پتہ کہ بغیر مرغی انڈے کا پیدا ہونا محال ہے اور بجائے مرغی کی پوجا کرنے کے انڈے کی پوجا میں لگے ہیں تو آپ انہیں کیا کہیں گے؟ بس اب کی بار ہم انہیں مٹا کر ہی رہیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ہی ہیں نا؟ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔
۔۔ دوسرا منظر ۔۔
تو آپ کے خیال میں مرغئی بھٹکے ہوئے لوگ ہیں؟
جی بالکل۔ جب اصل اوتار کو چھوڑ کر مرغی کی پوجا میں لگے ہیں اور انڈا کھاتے انہیں ذرا شرم نہیں آتی تو آپ انہیں کیا کہیں گے؟ بس اب کی بار ہم انہیں مٹا کر ہی رہیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ہیں نا؟ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟
ویسے آپ ہیں کون؟ ہماری چھوڑیے جی۔۔ ہمارا تو پولٹری کا کام ہے۔
Filed Under: طنزومزاح, نثری تجربات
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (15)
جعفر
January 20th, 2010 at 11:29 pm
آپ نے دریا کو کوزے میں بند کرکے سمندر میںبہا دیا ہے
ابوشامل
January 21st, 2010 at 12:44 am
بہت ہی گہرا ہے۔۔۔۔۔
سوچ کے گھوڑے دوڑا دیے ہیں۔ انہیں کچھ ملا تو یہاں تبصرے میں عرض کر دیں گے۔
احمد عرفان شفقت
January 21st, 2010 at 10:56 am
میں تو بس یہ کہوں گا : زبردست،بہت خوب
عدنان مسعود
January 21st, 2010 at 2:22 pm
خوب۔ علم نہیں کہ آپ کی تخلیقانہ سوچ کا منبع کیا رہا مگر کمپیوٹر ساینس میں اس سے ملنے جلتے مسیلہ کو ‘انڈینس’ یا نکسی پرابلم کہا جاتا ہے جو کہ ایک بایٹ میں بٹ کے طریقہ ترتیب کے اوپر یا نیچے سے ترتیب وار ہونے سے متعلق ہے۔ انگریزی ادب میں ‘گلیور ٹریولز’ میں بھی یہی مسیلہ للیپت اور بلفسکو قبایل کے درمیان جنگ و جدل کا باعث رہا۔
بہرحال آپ علم بَشریات کے قدیمی مسایل کے جدید تصادم کو سادہ فہم انداز میں پیش کرنے پر تعریف کے مستحق ہیں۔
اسید
January 21st, 2010 at 4:05 pm
آپ نے تو سوچنے پر مجبور کردیا۔۔۔کیونکہ سوچے بغیر یہ تحریر سمجھ میں آنے سے تو رہی۔۔ ۔
عبداللہ
January 21st, 2010 at 4:39 pm
مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ نہ تو کسی کی برتری کا ہے نہ کمتری کا بات صرف اتنی ہے کہ ایک صنف دوسری صنف سے وہ حقوق مانگتی ہے جو اللہ نے اسے عطا کیئے ہیں مگر کچھ احساس برتری کا شکار لوگ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس صنف جسے وہ ناقص العقل سمجھتے ہیں کی کسی فرد کو اپنے کو لاجواب کرتا دیکھتے ہیں تو انہیں یہ بات ہضم نہیں ہوتی کیونکہ ان کے اندر یہ خوف جاگنے لگتا ہے کہ اس کو حقوق دیئے تو وہ جو ایک بے دام کی غلام میسر ہے وہ قابو سے باہر ہوجائے گی!
ابن سعید
January 21st, 2010 at 8:37 pm
اجازت ہو تو جعفر بھائی کا تبصرہ دہرا دوں۔
محمداسد
January 22nd, 2010 at 3:55 am
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
اس سے زیادہ اور کیا لکھا جائے۔
عبداللہ
January 22nd, 2010 at 10:12 am
تصحیح ،
کیونکہ ان کے اندر یہ خوف جاگنے لگتا ہے کہ اس کی بات کو تسلیم کیا تو وہ جو ایک بے دام کی غلام میسر ہے وہ قابو سے باہر ہوجائے گی!
عمر احمد بنگش
January 22nd, 2010 at 5:35 pm
حضور، کچھ تو خیال کیجیے۔ ہماری پولٹری کو کاہے کا دوش دے رہے ہیں۔
مثال تو خیر اپنی جگہ، اتنی گہری باتیںنہ کیا کریںجناب، ہم جیسے کند زہن بھاگتےرہتے ہیںپھر۔۔۔۔۔۔۔
نعمان
January 23rd, 2010 at 1:43 pm
بہت اچھے ۔ آخری سطر کے آخری جملے میں ٹوئسٹ اور آئرنی کا امتزاج خوب ہے۔
راشد کامران
January 24th, 2010 at 5:32 pm
تمام خواتین و حضرات کے تبصروں کا شکریہ۔۔
عمر احمد بنگش
January 24th, 2010 at 7:46 pm
دیکھ لیجیے ابھی تک پھر رہا ہوں، آیا تھا کہ کسی نئے زاویے سے اس تحریر کو سمجھوں تو دیکھا حضور آپ نے خواتین کو بھی مخاطب کیا ہوا ہے، ہیںجی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ابھی تک کے ہم تمام تبصرہ نگاروںمیںخاتون کون ہے یہاں، جعفر کہیںتم تو نہیں
راشد کامران
January 24th, 2010 at 7:51 pm
نہیں جناب۔۔ پہلے کبھی بلاگ پر “لکھتے ہیں” کا لاحقہ لگا ہوا تھا جس پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لیے اب حفظ ماتقدم کے تحت کلام وسیع کرلیتے ہیں۔
جعفر
January 24th, 2010 at 11:54 pm
میری زلفوں سے غلط اندازے نہ لگائے جائیں۔۔۔
ویسے میں خواتین کو اتنا پسند کرتا ہوں کہ شاید وہ خود بھی نہ کرتی ہوں۔۔۔
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں