انقلابازیاں

سچ پوچھیے تو ہم بھی انقلابوں کے متاثرین میں شامل ہوئے جاتے ہیں؛ قصور ہمارا نا جانیے کہ ہم نے اپنی سی کردیکھی مگر کیا کیجیے کہ میلاد سے لے کر آج یہ سن آپہنچا مگر قبلہ انقلاب کو نا آنا تھا نا آن کے دیے۔ پہلے پہل تو بڑے رنگین قسم کے انقلابوں کا دبدبہ تھا کہ اُدھر سے کامریڈ سرخی پھیرتے چلے آتے تھے اور اِدھر سے مرد حق کے بانکے سبزہ سبزہ چلاتے وہ سماں باندھتے کہ مت پوچھیے؛ اب ایسے میں آسمان میں اُڑتوں کو ایشیا ہمیشہ جامنی ہی دکھائی دیا اور زمین میں رہتے اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے انقلابوں میں گم ہوکر وہاں پہنچے کہ اب ان کو کچھ اپنی خبرتلک نہیں آتی۔

دیکھیے گیان کے لین دین کی دکان بڑھائے مدت ہوئی؛ اب ذکر یار چلا ہے تو عرض کروں کہ انقلابی اور انقلابچی یوں کہیے کہ

پریتم ہم تم دو ہیں جو کہن سنن میں ایک ۔۔ من کو من سے تولیے تو یک من کبھو نا ہو۔

اب پیشہ ور انقلابچی اسے لفاظی کہیں گے اور سادہ دل؟ انقلاب، جبکہ قلندر کی اپنی ڈے جاب ہے۔  فیض کے نغمے بجا کر سبز انقلاب لائے جائیں گے اور درانتی پکڑا گائے اقبال کے ترانے؛ اب مُوا مورخ اسے انقلابازی نا لکھے تو خاک لکھے؟

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (13)

ابوشامل

December 19th, 2011 at 2:35 am    


واہ ۔۔۔ کیا کہنے :)

محمد وارث

December 19th, 2011 at 2:41 am    


اجی کیا کہنے صاحب، انقلابازیاں،

“فیض کے نغمے بجا کر سبز انقلاب لائے جائیں گے اور درانتی پکڑا گائے اقبال کے ترانے؛ اب مُوا مورخ اسے انقلابازی نا لکھے تو خاک لکھے؟”

واہ واہ واہ

جعفر

December 19th, 2011 at 12:32 pm    


بلیو لیبل کی چسکی اور ہوانا سگار کے سُوٹے لگا کے فیض کی شاعری سے محنت کشوں کا انقلاب برآمد کرنے والے ڈیفنسی اور گلبرگی انقلابازئیے، آپ کی اس جسارت پر شدید برہم ہوں گے۔
اور دوسری طرف والوں سے تو پہلے ہی آپ کی نہیں بنتی
😀
اس لفظ کے ایجادنے پر کم ازکم ادب کا نوبل انعام تو ملنا ہی چاہیے آپ کو۔
اعلی!

عدنان مسعود

December 19th, 2011 at 5:42 pm    


ٹوئٹریاٹیوں کی عینک سے تو انقلاب فرانس و فارس بھی انقلابازی دکھائی دے ہے صاحب ۔ گراس روٹ کی تحریکیں تو اب بھی سینہ بہ سینہ انہی نظریات کا پرچار کر رہی ہیں کہ جن میں ذات وصفات اور موضوع ومحمول کی دوئی لازم ٹہری ہے۔ مصر سے طور سینا تک جھکاو توالاليمين ہی ہے کہ یہ پنڈولم ری ٹویٹس سے نہیں جھکا کرتے۔ احمرانہ کاپی رائٹ کے نفاذ کی کاوش پر تو ہم بس یہی کہیں گے کہ چین و عرب ہمارا۔۔۔ باقی تحریر خوب ہے۔

Omair

December 21st, 2011 at 6:38 am    


rashid bhai main to bas itna hi kahoon ga ke
‘na surkh hai na sabz hai,
pakistan ko qabz hai ‘

adab arz hai…
omair

فیصل

December 21st, 2011 at 11:41 am    


حاجی صاحب، واپسی مبارک ہو، اور حج بھی۔
انقلاب کی ریل بھی کچھ کچھ سودیشی ریل بنتی جا رہی ہے، بلکہ ریل پیل ہو گئی ہے۔
بہرکیف، نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے، اپنا تو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ انقلاب آ گیا تو بول دیں گے، دیکھا ہم نے نہ کہا تھا؟ اور نہ آیا تو۔۔۔ پھر بھی یہی بول دیں گے۔ یہاں یاد کون رکھتا ہے کس نے کس وقت کیا کہا تھا؟
یہ بات بہرحال آپ کے بلاگ میں ہی ہے کہ جو بات ہم کہیں اور نہیں کہتے، یہاں کہہ جایا کرتے ہیں۔

فیصل

December 21st, 2011 at 11:45 am    


اور ہاں جعفر میاں، دوسری طرف والوں سے آپکی کیا مراد ہے کہ یہاں تو اب کئی اطراف ہیں۔ راشد میاں کا اشارہ غالباً تازہ ترین پاکستانی چی گویرا جی طرف تھا، باقی سب تو آزمائے ہوئے ہیں اور یوں “پرانے” ہو چکے ہیں، بلکہ بقول درویش ( یعنی مشیرِ چی گویرا) بروئے کار آ چکے ہیں۔

جعفر

December 21st, 2011 at 12:06 pm    


دوسری طرف والوں‌سے مراد اپنے “برادران اسلام” تھے۔
;D

عمر احمد بنگش

December 22nd, 2011 at 2:15 pm    


انقلابازیاں!!!
انقلاب کی قلابازیوں نے جو ہمیں‌گھما کر رکھ چھوڑا ہے تو صاحب سچ کہے ہیں‌آپ کہ کیا لکھیے گا، گر خاک نہ لکھیں‌گے؟
نہایت عمدہ۔۔۔

انقلابازیاں | Tea Break

December 22nd, 2011 at 5:45 pm    


[…] انقلابازیاں […]

راشد کامران

December 28th, 2011 at 1:14 am    


آپ حضرات کا شکریہ۔ وقت نکال کر پڑھنے کا۔
فیصل صاحب خیر مبارک۔ بس جی اللہ تعالی کی توفیق۔

کاشف نصیر

December 28th, 2011 at 8:44 am    


انقلابی عمل کوئی بازیچہ اطفال نہیں، تاریخ کہتی ہے کہ دنیا میں کل ملا کہ کوئی ایک درجن انقلاب آئیں ہیں۔ آپ سنائیں کہاں غائب تھے، واپسی مبارک ہو۔

راشد کامران

December 29th, 2011 at 2:39 pm    


کاشف صاحب۔ ایک درجن انقلابات تو پاکستان میں‌ہر وقت آنے کو بیتاب رہتے ہیں :)
غائب کہیں نہیں‌جناب ادھر ہی موجود ہیں۔

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website