قلندر کدھر جائے؟

غلامی اگر مکروہ قرار نا دی جاتی تو نواب صاحب کے صف شکن ماموں ہی قرار پاتے؛ وہی صوم و صلاۃ کی پابندی، منطق میں طاق، فلسفہ میں طاق الا طاق اور پھر بٹیر سی طبعیت۔ فرق صرف یہ کہ مولوی صاحب بھی معقول کرنے سے معذور۔ لیکن یہ سب مصاحبوں کے قصیدے نہیں بلکہ ماموں کا اقبال بڑائی سمجھیے کہ آپ کو قیاس و مشاہدے کی تہمت اٹھانے سے مکمل بری رکھتے اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور غیر معمولی شخصیت پر کھل کر آپ اظہار خیال فرماتے۔

دیکھیے دلوں کے حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اگر آپ کا گمان یہ ہے کہ اس قصے میں  ناک، مچھلی کے کانٹے اور انکم ٹیکس کے دفاتر کے محل وقوع پر بالواسطہ بھی کوئی روشنی ڈالی جائے گی تو عرض ہے کہ ان دو قصوں میں سوائے ہماری شریر طبعیت اور بری صحبت کے  کوئی قدر مشترک نہیں یا یوں سمجھیے کہ  سجے آلی پالٹیوں کا خوف ثانی الذکر قصے کے سرسری تذکرے سے بھی ہمیں باز رکھتا ہے کہ ہماری دنیا دار نظروں کو راہ میں سوئے دار کے سوا ہر دوسرا مقام جچتا ہے۔

صبر کا پیمانہ تو ان صدیوں کی بات ہے جب فیس بکان متحرک ماورائی داستانوں کے حساب سے بھی بے پر کی مانی جاتی تھیں۔ اب تو بات صبر کے جوہڑوں تک پہنچ چکی ہے اور ماموں کے ذکر کثیف کا سبب ہمارے جوہڑوں کا رساؤ ہی سمجھیے۔ دیکھیے برداشت کی حدیں ہوا کرتی تھیں اب تو برداشت اور بے حسی کی بھرت (Alloy) کا دور ہے جو ہر بات سہنے، سننے اور بھول جانے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے لیکن اگر معاملہ اس بھرت کی سختی اور لچک سے بھی آگے بڑھ جائے توتیرا قلندر کدھر جائے؟

آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (4)

جعفر

March 23rd, 2012 at 1:14 am    


صاحب، آپ کی مدد کی ضرورت آن پڑی ہے۔ اس “پیس” کا تعلق ہمیں تو سابق ہم وطنوں اور حالیہ بھائیوں سے جیتے جانے والے ایک کھیل کے بعد ہونے والا طوفان ہاوہو سے جا ملتا محسوس ہوا۔ کیا فرماتے ہیں مصنف ذی شان بیچ اس “ٹیوے” کے؟

افتخار اجمل بھوپال

March 23rd, 2012 at 5:35 am    


یا پیدا کرنے والے ۔ کیا ہندو دھرم سے منسوب بیان کہ”آتما سفر کرتی ہے” کے مصداق کسی لکھنوی نواب قلم پرداز کی آتما مردِ جدید کے شریر میں سرائت کر گئی ہے ۔ یا میرے مالک میں کہیں محوِ خواب نظارہءِ رویا تو نہیں کر رہا ۔

عدنان مسعود

March 27th, 2012 at 12:11 am    


قبلہ، آپ کے بلاگ کی ترکیب تو اب زبیدہ آپا کے دسترخوان کی سی ہے کہ

۱۔ باغ و بہار، داستان امیر حمزہ اور الف لیلی و لیلی کی تراکیب کا باریک مصالحہ میر امن یا رجب علی سرور کے سل بتےپر پیس لیں۔
۲۔ اس میں رتن ناتھ سرشار کی زبان کی حلاوت، ظرافت اور چاشنی کا پیسٹ بنا کر ڈالیں۔
۳۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ماموں کے ناگفتنی لطائف کا چھڑکاو کریں اور ابہام کی ہلکی آنچ پر پکایں۔
۴۔ جب اینکڈوٹس سے غموض کا دھواں اٹھنے لگے تو سخن مشکوک کا تڑکا لگا کر ہانڈی اتار لیں، خاص الخاص بلاگ تیار ہے۔

یعنی کہ غضب خدا کا، اتنا منتخب لکھا تو تو آپکا حلقہ اثر، ہلکا اثر ہونے میں دیر نا لگے گی کہ کچھ نا سمجھے خدا کرے کوئ۔

راشد کامران

March 27th, 2012 at 1:49 pm    


جعفر صاحب۔ یہ میچ کااثر تھا۔۔ سو فیصدی تو نہیں۔۔ یوں کہنا چاہیے کہ کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی۔

اجمل صاحب۔ مرد جدید بھی وہی ہے؛ آتما بھی وہی ہے؛ ارتقاء یہاں لے آیا ہے۔

عدنان بھائ محترم سب کچھ ادھر ادھر کا ہی ہے لیکن “اختصار” کی خصوصیت پر توجہ کریں۔۔ ٹویٹ سائز میں بلاگنگ کرنا۔۔ خاں صاحب قیامت ہے :)

اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں

Name *

Mail *

Website