گدھے
استاد احمد شاہ پطرس بخاري كا مضمون ’كتے‘ ہم نے غالباً اتني بار بلند آواز سے پڑھا كے آس پڑوس كے سارے كتوں نے باقاعدہ ہمارے خلاف محاذ گرم كر ركھا ہے مگر خدا گواہ ہے كہ ہماري نيت كسي صورت كسي كتے كي دل آزاري نہ تھي كہ ہمارے جيسا بے ضرر انسان كتوں كي پوري فوج تو چھوڑ كسي ايك پلے كي دشمني بھي مول نہيں لے سكتا۔ بار بار باآواز بلند پڑھنے كا مقصد صرف يہ جاننا تھا كے كتے ميں ايسي كونسي خاص بات تھي كے استاد كي نظر انتخاب ايسے بيہودہ جانور پر پڑي؛ آخر گدھے بھي تو تھے ؟ زمانہ طالبعلمي ميں تو كسي استاد سے يہ سبب دريافت كرنے كي جرات نہ كرسكے كہ گويا مشرقي اقدار اور عظمت استاد غالب رہيں ليكن ايك رات آزاد معاشرے اور روشن خيالي كي ہواؤں نے ذہن كو ماؤف كيا ، ’كتے‘ پڑھتے پڑھتے اچانك تن كي آنكھيں بند ہوئيں تو من كي آنكھيں كھليں ، كيا ديكھتے ہيں كہ استاد اپنے تمام جاہ و جلال كے ساتھ ايك كرسي پر براجمان ہيں، آس پاس كئي ولائتي كتے زنجيروں ميں جكڑے نہايت ادب سے دربار ميں صف آرا ہيں۔گو كہ ايسے مواقع پر اپني موجودگي ہميں ذرا نہيں بھاتي كے باغيانہ اور سركش خيالات دماغ ميں ١٢ مئي برپا كرديتے ہيں اور كم بخت ايك ساتھ دو دو ريلياں نكال كر دماغ كے مشرقي انتہا پسند كونے سے مغربي سيكيولر كونے تك مٹر گشتياں كرتے پھرتے ہيں چناچہ ايسي ہي كيفيت كے زير اثر ہم نے استاد سے عرض كي “كتے” ہي كيوں ؟ گدھے كيوں نہيں؟ ۔۔ ماحول ميں ايك عجيب سي كشيدگي پيدا ہوئي، اعلٰي نسل كے ولايتي كتوں نے اچانك مغربي ثقافت قدرے پرے كرتے ہوئے اتحادي افواج كي سي صورت اختيار كرلي۔ استاد نے ايك قہر آلود نظر ہم پر ڈالي، كرسي سے خود كو علحيدہ كيا ، كمرے كا دروازہ كھولا اور ارشاد فرمايا “گدھا” اور باہر نكل گئے۔ كہتے ہيں من كي آنكھيں طبعياتي قوانين كي پابند نہيں ہوتيں ليكن پھر بھي ہميں گمان ہوا كے وہ زنجيريں جو ولائتي كتوں كے ساتھ پہلے سين ميں ہم نے ديكھيں تھيں ہر چند كہيں تھيں كہ نہيں تھيں۔ ايسے مواقع پر ہم من كي آنكھوں ميں انگلياں بھونك پر ان كو بند كرنے قائل ہيں كہ استاد كے مطابق كتوں كا ولائتي ہونا انگريزي محاوروں سے انكي مطابقت كي كوئي شرطيہ ضمانت نہيں ہے۔ آنكھ كھلنے پر ہم نے تہيہ كر ليا كے اگر دوبارہ استاد سے شرف بازيابي حاصل ہوا تو پيروں پر ناك ركھ كر گستاخي كي معافي مانگ ليں گے ليكن اپني برادري كي توہين برداشت نہيں كريں گے اور گدھوں كي خصوصيات اہل زمين تك ضرور پہنچائيں گے چاہے اس كے ليے ہميں ايسے كتے خواب ہي كيوں نہ ديكھنے پڑيں۔
گدھا ايك قديم جانور ہے، كہتے ہيں كہ قديم ادب اور صحائف ميں بھي اسكا تذكرہ موجود ہے ۔ كيونكہ گدھے اور انڈے كا كوئي تعلق نہيں چناچہ گدھوں كے سلسلے ميں ايسي كوئي چيز زير بحث نہيں اور سب ہي اس بات كے قائل ہيں كہ گدھا بذات خود پہلے آيا نہ كہ گدھے كا انڈا۔ علامہ حضرت ڈارون سے كسي نے گدھوں كي بابت دريافت كيا كہ جانوروں كي كس نوع پر ايسي افتاد آن پڑي كے اس نے گدھے كي صورت اختيار كر لي؟ فرمايا گدھا ہميشہ سے گدھا ہي تھا، يعني خالص نسل ہونے كا اس سے بڑا ثبوت اور كيا ہوگا۔ وہ دن ہے اور آج كا دن گدھا ہونے كے ليے گويا آباء و اجداد كا گدھا ہونا لازمي امر ٹہرا ۔ گدھے كي سب سے بڑي خصوصيت يہ ہے كہ اسے جس زاويے سے ديكھيں گدھا ہي دكھائي ديتا ہے نہ كہ كتوں كي طرح كہ جسے ذہن كتا قبول كرنے سے پہلے ہر بے ضرر جانور جيسے بكري وغيرہ سے تشبيہ ديتا ہے۔ كتوں پر گدھوں كي ايك برتري يہ بھي ہے كہ اپني پيدائش كے ساتھ ہي گدھا ، گدھا كہلاتا ہے جبكہ كتے كو كتا بننے كے ليے پلے اور كتے كے بچے جيسے كٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ويسے تو ہر گدھا، گدھا ہي ہوتا ہے ليكن ’گدھا شناس‘ گدھوں كي تين بڑي قسميں بتاتے ہيں، سياسي گدھے، مذہبي گدھے اور فوجي گدھے۔
سياسي گدھے ايسے گدھے ہوتے ہيں جو سياست كرتے ہيں۔ پرانے زمانے كي بات ہے ايك شخص كے پاس ايك گدھا ہوا كرتا تھا، وہ شخص ہر روز اس پر بے انتہا نمك لاد كر دريا پار كيا كرتا تھا، ايك دن گدھے كو سياست سوجي اور اسنے دريا ميں اترتے ہيں پاني ميں ايك ڈبكي لگائي، مچھليوں سے حالات حاضرہ پر گفتگو كي اور مزے سے دريا پار كر ليا۔ اگلے دن مالك نے گدھے پر روئي لادي اور دريا پار كروايا۔ كہتے ہيں سياسي گدھوں كا جد امجد وہي گدھا تھا اور آج تك سياسي گدھے اپنے دادا كي سياست كي تعريف اور مالك كے بيوقوفي كے قصے سناتے ہيں جس نے روئي كو نمك سمجھ كر خريد ليا۔ سياسي گدھے عموما جماعتيں بنا كر رہتے ہيں ليكن كبھي كبھي نظريہ ضرورت كے تحت غير جماعتي ہونا پڑے تو ’سياست ميں سب جائز ہے ‘ كہ مصداق قطعاً نہيں كتراتے كہ گيا وقت پھر نہيں آتا۔
مذہبي گدھے نہايت مذہبي ہوتے ہيں ۔ اللہ والے ہونے كي وجہ سے نہايت جكھے ہوئے معلوم ہوتے ہيں ۔بوجھ اٹھا كر يوں سفر كرتے ہيں گويا “دنيا فاني ہے، ہر كسي نے يہاں دو گھڑي گزارني ہے۔ تو جلدي كس بات كي” ۔ ادھر دوران سفر صدائے نماز بلند ہوئي ادھر حضرت نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور بيچ سڑك پر قيام فرماديا۔ لوگ لاكھ چيخيں، چلائيں كہ ٹريفك ميں خلل آتا ہے ليكن مذہب كا معاملہ ہے لوگوں كو خود احتياط كرني چاہيے۔كچھ مذہبي گدھے اپنے آپ كو سياسي گدھے ہي تصور كرتے ہيں كہ چنگيز كي فوجوں كے زير استعمال گدھے نہيں بلكہ گھوڑے تھے چناچہ سياسي اور مذہبي گدھوں كي ايسي كوئي حد بندي نہيں ہے ليكن عام مشاہدہ ہے كہ سياسي گدھے مذہبي گدھوں سے كچھ فاصلہ بنا كر ركھتے ہيں كہ انكي نظر ميں مذہب پر سياست كچھ مناسب بات نہيں ۔ گو كہ گدھوں كے معاملے ميں مشرقي اور مغربي تہذيبيں اہم نكات پر متفق ہيں ليكن مغرب ميں مذہبي گدھوں كي وہ ’ٹور‘ نہيں جو ہمارے يہاں ملتي ہے، اس معاملے پر مغربي مذہبي گدھوں ميں كافي اشتعال پايا جاتا ہے ليكن ’گدھا اشتعال‘ پر كون كان دھرتا ہے ؟
فوجي گدھے بڑے خوش قسمت تصور كيے جاتے ہيں۔ اگر دور كہيں مختلف فوجي گدھے كھڑے ہوں تو پہلي نظر ميں ايك جيسي وردي يعني كھال ميں دكھائي ديتے ہيں۔ بڑے نازو نعم ميں پالے جاتے ہيں اور ان پر كوئي وزن نہيں لادا جاتا كہ فوج كا معاملہ ہے احتياط كرني پڑتي ہے۔ فوجي گدھے عموما كسي كو خاطر ميں نہيں لاتے ليكن پھر بھي سياسي اور مذہبي گدھوں كو ان سے بنا كر ركھني پڑتي ہے۔ گوكہ بالائي سطح پر فوجي گدھوں كو ہر طرح كي ہرزہ سرائي كا سامنا رہتا ہے ليكن مغربي سياسي گدھوں ميں مشرقي فوجي گدھوں كي مقبوليت كي وجہ سے اندروني طور پر يہ بہت مستحكم ہوتے ہيں۔
گدھے عام طور پر اپني گاڑي ميں سفر كرنا پسند كرتے ہيں جنہيں كچھ ناعاقبت انديش لوگ گدھا گاڑي بھي كہتے ہيں۔ گدھا گاڑي عموما ايك گدھے كي اپني ملكيت تصور كي جاتي ہے ليكن كبھي كبھي ايك گاڑي دو گدھے ايك ساتھ چلانے كي كوشش كرتے ہيں ليكن اختيارات كي ناجائز تقسيم كي وجہ سے دونوں عموما ايك دوسرے سے نالاں رہتے ہيں ۔ گدھے عمومي طور پر خاموشي اختيار كيے ركھتے ہيں ليكن گفتگو كاجب بھي كوئي موقع ہاتھ آتا ہے اس دوران دوسري آوازيں ايسے ہي معلوم ہوتي ہيں جيسے نقار خانے ميں طوطي كا احتجاج۔ گو كہ استاد نے كتوں كے بھونكنے پر قوٰي مطعل ہونے كي شكايت كي ہے ليكن گدھوں كي تقريروں كے دوران ايسي كوئي شكايت سننے كو نہيں ملي، ہاں يہ اور بات ہے كہ قوٰي كي موجودگي كا احساس جاتا رہتا ہے ۔ گدھے كي مشہور چيزوں ميں اسكي دو لاتيں سب سے اہم ہيں حالانكہ ہر گدھا كم از كم چار ٹانگوں كا مالك ہوتا ہے ليكن قناعت پسندي كي وجہ سے دو لاتوں كے استعمال پر ہي اكتفا كرتا ہے ۔ گدھے كي دوسري مشہور ترين چيز اسكي خو بصورت شكل ہے جسے بعض لوگ تھوتھني كا نام ديتے ہيں اور يہي تھوتھني اسے اپني قبيل كے بلا سينگ جانوروں ميں ممتاز كرتي ہے۔
گدھے كي تيسري مشہور ترين چيز كوجانے ہي ديجيے كہ ابھي ہم روشن خيالي كے ابتدائي دنوں ميں ہيں جہاں مذہبي گدھوں كے سينگ نكل آنے كا حقيقي خطرہ پيدا ہوگيا ہے اور ہم گدھوں كے اس انتہائي ’پرائيوٹ ‘ معاملہ ميں اپني لات پھنسا كر دو لاتيں كھانے كے متحمل نہيں ہوسكتے لہٰذا اس مسئلے پر اپني عقل لڑائيے اور اس عوامي گدھے كو معاف ہي ركھيے كہ اردو ادب گدھے سے متعلق مزيد محاوروں كا بوجھ نہيں اٹھا سكتا۔
Filed Under: طنزومزاح
آپ کے تبصرے۔ اب تک کل تعداد ۔ (2)
منظر نامہ » Blog Archive » راشد کامران سے شناسائی
July 23rd, 2008 at 12:26 am
[…] تحریر لکھی تھی “گدھے“ گو کے استاد پطرس کا چربہ سا ہی ہے لیکن دل خوش ہوا تھا […]
راشد کامران سے شناسائی | منظرنامہ
July 22nd, 2019 at 8:55 pm
[…] تحریر لکھی تھی “گدھے“ گو کے استاد پطرس کا چربہ سا ہی ہے لیکن دل خوش ہوا تھا […]
اس بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں